جب سے میرا اٹھنا بیٹھنااور نظریہ بی ایس او کے فکری ساتھیوں سے جڑاہے، اس وقت سے لیکر اب تک بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔ بی ایس او کی لمبی سفر اور منزل مقصود متعین نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ بی ایس او ایک طلباء تنظیم ہے، چاہے بلوچ غلام رہیں یا آزاد، بی ایس او عظیم قربانیوں کاتسلسل، فکری اور نظریاتی حوالے سے لیس وہ تنظیم رہے گی جو شعوری، علمی اور فکری حوالے سے ہر وقت ہر فورم اور ہر حالت میں طلباء کی واحد پلیٹ فارم رہی ہے، جس نے ہمیشہ طلباء کی نمائندگی کی ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں سے لیکر قومی تہذیب و تمدن، ننگ و ناموس، زبان کلچر اور آثار قدیمہ سے ہوتے ہوئے، اسٹوڈنٹس کو روشن مستقبل کا سمت دیکھاتی ہے۔ جسے شاید ہر مجھ جیسے نالائق انسان بیان نہ کرسکیں ۔
تاریخ کے اوراق کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو بی ایس او کئی دفعہ منتشر ہونے کے قریب یا پھر آپ کہہ سکتے ہیں ناکام منتشر سازش سے دوچار ہواہے۔ جس نے اپنا رخ لیکر اپنے فکری ساتھیوں کو ایک ساتھ کر کے پھر منزل کی طرف گامزن ہواہے۔ بی ایس اوکے تاریخ سے لیکر بی ایس او (آزاد ) کا وجود میں آنا، شاید کچھ سیاسی احباب کے لیئے ناگزیر گذرا ہوگا لیکن تلخ حقیقت سے یہی اخذ کی جاسکتی ہے کہ آج نوجوانوں میں جو شعور اور فکر پائی جاتی ہے، اس میں اگر بی ایس او (آزاد)کونذر انداز کی جائے تو تاریخ کے ساتھ ایک بڑی انصاف ہوگی۔ بی ایس او کی اگر پچاس سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بتانا مشکل نہیں ہوگا کہ بی ایس او مختلف نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے مشکل سے مشکل وقت کو مد نظر رکھ کر پھر بھی سر کاری ایما ء پر چلنے والے نام نہاد نیشنلسٹ پارٹیوں کے زیر اثر نہیں رہا ہے۔ جب پچاس سال پہلے بی ایس او ایک نظریہ اور فکر پر عہد کرتا ہے وہی عہد اور فکر آج بی ایس او (آزاد) کی شکل میں بلوچستان سمیت بیرون ممالک میں سیاسی آگہی سمیت محکومی کی تبلیغ سے برسرِ پیکار ہے۔ بی ایس او کے فکری پختگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود پھر بھی ایک ہی سوچ اور نظریہ پہ قائم رہنا ایک عظیم نظریاتی فکر اور اعتدال پسندی کے عنوان سے کم نہیں ہے۔ بلوچ معاشرے میں بلوچ طالب علموں کو سیاسی تعلیمی اور حقیقی معاملات میں شعور دینا بی ایس او (آزاد) کے ان کارناموں میں سے ایک ہے جس پر بی ایس او کو فخر سے سر بلند کر کے کہنا ہوگا یہی نظریہ فکر ایک انصاف پہ مبنی معاشرہ جوآجو ہونے تک جاری رہے گی۔
افسوس کی بات یہ ہے جب مجھے سوشل میڈیا پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے، جب ایک سابق پارلیمانی امیدوار جو سوراب کے علاقے کی سیٹ پر شفیق مینگل سے الیکشن لڑ کر ہار چکا تھا، پھر وقت اور حالت کو دیکھتے ہوئے بعدازاں جناب پارٹی لیڈر کے سامنے منت اور سماجت کرکے خود کو واپس اسٹوڈنٹس سیاست میں لاکر ایک طالب علم تنظیم کا لیڈر نہیں بلکہ اپنے کو چیئر مین نامزد کرکے بی ایس او کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں لگاہوا ہے اور زبان پر یہی الفاظ ہے کہ بی ایس او( آزاد) نے قلم کے بجائے اسلحہ اٹھایا ہواہے۔ جناب چیئر مین صاحب آپکے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آپ ریاستی پالیسوں کا حصہ بن کر اُن کے کمان میں چلے گئے ہو، حالانکہ آپکو خاران جیسے پسماندہ علاقے میں تعلیم، تعلیمی اداروں کی خستہ حالی اور اسٹوڈنٹس کے مسائل پر منطقی حوالے سے بات کرناچائیے تھا لیکن آپ نے ان سب باتوں کو پسِ پشت ڈال کر بی ایس او (آزاد) کی عظیم قربانیوں اور شہیدوں کے لہو کو فراموش کرتے ہوئے، ریاستی زبان استعمال کرتے ہوئے تمام بلوچ شہیدوں کے روحوں کو ٹھیس پہنچایا، ایک تو یہ بات اب تک کسی کو سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ آپ کہا ں سے اور کیسے واپس طالب علم بن گئے اور پارلیمانی سیاست سے لیکر ایم پی اے کی سیٹ پر کھڑا ہونا اور پھرایک طلباء تنظیم کا چیئر مین بننا کس مجبوری کی عکاسی کرتا ہے۔
آپکو بناء کسی تجربے، سیاسی اور تعلیمی پختگی کے بغیر بی ایس او جیسے تنظیم کی چیئر مین شپ زیب نہیں دیتی ہے۔ جناب اگر آپ بلوچستان کے سیاست سے واقف ہیں، تو یہ سننے کی کوشش کریں، بی ایس او (آزاد ) وہ واحد تنظیم ہے جو سنگت فدا بلوچ اور حمید بلوچ کے فلسفہ پر چل رہا ہے، اُن تمام شہیدوں کی قربانی کو رائیگاں نہیں دے رہاہے، جنہوں نے بلوچستان کی بقاء کیلئے اپنی جانیں نذرانے کے طور پر پیش کیے ہیں۔ جناب چیئر مین صاحب یہ بھی سننے کی سکت رکھیں، بی ایس او( آزاد) کے سابق چیئر مین کو قلم اور کتاب کے ساتھ کوئٹہ میں جبری طور پر اغواء کیا گیا تھا، ذاکر مجید بلوچ کومستونگ سے کتابوں کے ساتھ بیگواہ کیا گیا تھا اور اس کے علاوہ بی ایس او( آزاد) کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ بغیر کسی اسلحہ اور بارود کے لوگوں کے سامنے آپریشن میں اٹھایا گیا تھا اور اب حال ہی میں کراچی سے بی ایس او( آزاد) کے جنرل سیکریٹری ثناء اللہ بلوچ سمیت سی سی ممبرز، نصیر بلوچ اور حسام بلوچ کو گھر میں گھس کر بچوں اور خاتون کے سامنے کتابیں پڑ ھنے کے وقت جبری طور پر اغواء کیا گیا۔
جناب چیئر مین صاحب ! میں کس کس کا نام لوں ، بی ایس او ایسے تاریخ سے بھرا پڑا ہے، اگر علمی اور فکری وابستگی رکھنے کا ذرابھی شوق ہے تو پڑھنے کی زحمت کریں اگر نہیں تو علمی سر کلز میں بیٹھ کے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں، تو آپ کو بی ایس او( آزاد)کے تعلیمی سرگرمیوں سے لیکر شعوری، علمی اور آگہی سے نا ختم ہونے والی طویل اور لمبی فہرست پڑھنے کو ملے گی۔
جناب چئیر مین صاحب معذرت کے ساتھ، اگر یہاں تک یہ جملے آپکے تسلی کیلئے کافی نہیں ہیں تو کسی اور وقت بی ایس او (آزاد ) کے نوجوان طالب علموں کی تعلیمی اداروں میں ، کتابی اور علمی ماحول میں جبری اغواء نما ء گرفتاری کا ایک کتاب سامنے لا کر تسلی دینے کی کوشش کرونگا۔