بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا کہ صوبے کی واحد وومن یونیورسٹی میں مسلسل ایسے واقعات ہو رہے ہیں چاہے وہ دہشت گردوں کے حملے کا واقعہ ہو یا کچھ عرصہ پہلے زہریلی خوراک کھانے کی وجہ سے طالبات کی بے ہوشی کی واقعات ہوں اور حالیہ دن ایک طالبہ کی پُر اسرار موت ہو ایسے واقعات کی وجہ سے وہاں زیر تعلیم بچیوں کی والدین کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی ذہنوں میں اس واحد وومن یونیورسٹی انتطامیہ کے حوالے سے تشویش پیدا ہو رہی ہے۔
ابھی گزشتہ دن یونیورسٹی میں پُر اسرار طور پر ایک طالبہ کی موت واقع ہو گئی ہے اس واقعے کے حوالے سے یونیورسٹی انتطامیہ کی باتیں الگ ہیں اور طالبہ کی والدین کے مطابق کہ ہماری بیٹی نے ہمیں فون کر کے بتایا تھا کہ کھانا کھانے کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہو گئی ہے لہذا مجھے ہسپتال لے جایا جائے لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو بڑی منت سماجت کے بعد بھی ہمیں اندر جانے نہیں دیا گیاَ۔
جب طالبہ کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی والدین کے کہنے کے مطابق کہ ہماری بیٹی کی موت زہریلہ کھانا کھانے کی وجہ سے ہوئی ہے اور دوسری جانب انتظامیہ نے لڑکی کو ذہنی مریض قرار دے کر فائل بند کرا دی۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ صوبے کی واحد وومن یونیورسٹی میں اس طرح کے واقعات کا ہونا سمجھ سے بالا تر ہے ہمارا صوبہ پہلے ہی سے تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہے اورخاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے توجہ نہیں دی جا رہی ہے پھر ان حالات میں اس طرح کی واقعات ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ہو رہے ہیں لہذا صوبائی گورنمنٹ اور چیف جسٹس سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ حالیہ واقعے کی نوٹس لے کر شفاف طریقے سے اس کی تحقیقات کریں۔