سیاسی رہنما محمد انور بلوچ ایڈوکیٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پچھلے ہفتہ کراچی سے نو طلباء اور کوئٹہ سے چار خواتین کم سن بچہ سمیت کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ و بیٹی اور تیمارداروں کا اور اب اسلم بلوچ کی ہمشیرہ بچوں سمیت کزن کا ایجنسیوں کے ہا تھو ں اغوأ جنگی اور اسلام کے مقدس اصولو ں کے خلاف غیر مہذب کاروائیاں کلی جارحیت اور انسانی اخلاقیات کیلئے چیلنج اور غلامی کا احساس دیلانا ہے جو ہر گز بلوچ قوم کو قبول نہیں ہے افسوس اس بات کا ہے کہ جب بلوچستان میں کسی پنجابی کو کانٹا چھپتا ہے تو بلوچ پارلیمنٹریز بلوچ روایات کا طنز لگا کر زمین کو سر پر اْٹھا کر چلانا شروع کرتے ہیں مگر ریاست کی بلوچ خواتین اور بچوں کے ساتھ اسطرح ظالمانہ اور سفاکا رانہ سلوک سے خاموشی جیسا کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے یوں لگتا ہے کہ بلوچ قوم کی مال و جان اور نگ وناموس کے دعویدارقوم پرستوں کی غیرت اور ایمان کو ریاستی دھیمک کھا چکا ہے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ جب تک اپنے لوگ باہر کے لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں تو باہر کے لوگ سر زمین پر قابض اور قوم کو غلام نہیں بناسکتے اس میں ریاست کی ظلم و زیادتی اپنی جگہ سب سے بڑے مجرم بلوچ پارلیمنٹریز ہیں جو بلوچ قوم کو قوم پرستی کے نام پر دھوکہ دے کر قومی دشمن کا معاونت کر رہے ہیں بلوچ قوم کو اپنے دشمن کے ساتھ ساتھ ان جھوٹے دعویداروں کا بھی پہچان ہو نا چائیے ہم جانتے ہیں کہ یہ ریاست اتنا مہذب نہیں ہے کہ ہم اْنکی اس طرح کی سلوک کا مذمت کریں اسلئے ہم اپنے قوم کو للکارنا بہتر مناسب سمجھتے کہ دشمن کے ساتھ وہ سلوک کریں جو تاریخ میں دیگر قوموں نے ثابت کیا دیا ہے وہ ہے قومی اتحاد و متحدہ جدوجہد اور آزادی۔