پُھلی آ میرل, تحریر: مُرید بلوچ

499

درد سینے میں ہوا نوحہ سرا تیرے بعد
دل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد

کیا لکھوں………کیسے لکھوں ……..کہاں سے وہ الفاظ لاؤں جو اُسکے مضبوط، پاک اور بلند و بالا کردار کے ساتھ انصاف کرسکے، کیسے لکھوں کہ اسکے جانے کے بعد بھی میں سانسیں لے رہا ہوں، زندہ ہوں حالانکہ زندگی کی کشتی تو اُسی دن ہی ڈوب گئی تھی، جس دن لاشعور کے سمندر میں شعور نے آنکھیں کھول لی تھی، ہر طرف لاچارگی، بے بسی اور نیستی و غلامی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر البرز سے لیکر ڈیرہ جات تک محوِ رقصاں تھے۔

.
ہر گذرتا ہوا دن سانحات و حادثات کے ساتھ ذہن و دماغ پر بجلیاں گراتا رہا، ہزاروں جگر کے ٹکڑے جنہوں نے اپنے ارمان، خواہشات و جوانی آزادی کے دیوی کی نذر کی، کٹتے رہے مرتے رہے اُن میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے تاریخ کے خونی چہرے پر اپنے مہر و محبت، خلوص اور لگن سے انمٹ نقوش چھوڑ دئیے۔ میرل کا تعلق بھی عاشقانءِ وطن کے اسی قبیل سے تھا۔.
میرل ایک ایسا ہمراہ، ایسا دوست جسکے سنگتی سے لرزتے قدموں میں اعتماد و مضبوطی آجاتی، جب حوصلے مایوسی و نا امیدی کی تاریک کنووں کی نذر ہونے لگتی تو وہ انہیں اپنے فہم، دانش و مہر سے چلتن جیسی بلندی بخشتا، جب کندھوں پر غمِ زیست کا بوجھ بڑھنے لگتا تو وہ اپنا کندھا آگے کرکے بار اپنے اوپر اٹھا لیتا۔ جب تنہائی دل کے کھنڈروں میں اپنے بال پھیلاتی ہوئی بین و ماتم کرنے لگتی تو وہ اپنے پُر مہر مسکراہٹ سے اسکے سسکیوں اور آہوں کا سہارا بنتا……

میرل مجھے اس لئیے بھی بہت عزیز تھا کہ اس سے مجھے ماما میندو اور علی سلیمان کی خوشبو آتی وہی مہر وہی لگن وہی، بےغرضی، وہی سادگی وہی حوصلہ۔

میرل سے میری پہلی ملاقات 2012 میں قلات کے قریبی پہاڑوں میں ہوئی مشکئے میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ ہمارے پاس آیا تھا، اپنی سادہ اور پُر مہر طبیعت کے سبب وہ بہت جلد ھی دوستوں میں گھل مل گیا، اس نے احساس ہی ہونے نہیں دیا کہ وہ کسی اور تنظیم سے تعلق رکھتاہے۔ میرل شاعر بھی تھا، اسی وجہ سے ہماری خوب جمتی تھی۔ گرم گرم چائے کے ساتھ شاعری اور سیاست کے ادوار چلتے رہتے تھے۔ گشت ہو یا اوتاک، میرل سب سے پیش پیش رہتا۔ وقت گذرتا گیا کچھ عرصہ گذارنے کے بعد میرل اپنے تنظیمی کاموں کے سلسلے میں خاران چلا گیا۔ پھر بدقسمتی سے کافی عرصہ ہمارا ملنا نہیں ہوا۔ تنظیمی اختلافات کے سبب دوریاں اتنی بڑہیں کہ ایک علاقے میں موجود ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ملاقات نہیں ہوسکی، انا و ضد جیسی بلاوں نے جو کہ کئی صدیوں سے ہمارے اجتماعی شعور کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے، پھر سےسراٹھانا شروع کردیا تھا. میں بذاتِ خود ایک شاخ ِ ناپائیدارکو گلستان سمجھ کر اپنےہی دھن میں خوش فہمی کے اندھیروں میں اتراتا و نازاں رہتا۔ 2015 میں میرل ایک دفعہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کسی پرانے دوست سے ملنے ہمارے کیمپ آیا، حال احوال کے بعد سے لیکر اگلے دن انکے جانے تک انہی اختلافات پر بحث ہوتا رہا ہم اپنے تلخ غیر سیاسی رویوں سے ذھر اگلتے رہے، وہ صبر کا پیکر مسکراتےہوئے اپنی دلیلیں دیتا رہا۔ کچھ عرصے کے بعد جب میرل سے اتفاقاً راستے میں ایک دو دفعہ ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ میرل تو وہی میرل ہے وہی مسکراہٹ، خلوص، عاجزی وہی مہر تب کہیں احساس ہوا کہ ہم کنویں کے مینڈک تو صرف گلے پھاڑ پھاڑ کے ٹرّا رہے تھے، جبکہ اس سمندروں کے باسی کو دیکھو کس قدر خلوص و سچائی سے دھرتی کے درد کو درمان کر رہا ہے۔

2016 میں جب ایک حملے کے دوران میں زخمی ہوا تھا، تو یہ میرل ہی تھا جو سب سے پہلے آن پہنچا میرے ظاہری زخموں کو مُندمل کرنے کیلئیے۔ وہ اپنے اُن تمام اندرونی زخموں کو بھول گیا جو دانستگی یا نا دانستگی میں ہمارے زہرافشانیوں سےاسکےدل و دماغ پر لگے تھے۔ پھر ہر دوسرے تیسرے دن وہ ہمارے پاس چکر لگاتا رہتا، علاقے کی بدلتی ہوئی صورتحال، آیندہ کی حکمت عملی، مشترکہ جہدوجہد غرض ہرموضوع پر بات چیت ہوتی رہتی۔

 

ابتداء میں مشترکہ کارروائیوں کے سلسلے میں کافی مشکلات درپیش آئی، اتنے سالوں کی دوریاں، تلخیاں، غلط فہمیاں، بھروسے اور اعتماد کا فُقدان، تنظیمی مُسابقت ایسے میں ایک ہی مورچے میں بیٹھ کر دشمن کے خلاف لڑنا صرف از صرف میرل جیسے دوستوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا، آج اگر کوئی باہر سے آئے تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئیگا کہ یہ اُسی چاکر و گہرام کی اولاد ہیں۔ جو 40 سال ایک اونٹنی کیوجہ سے خود کو مارتے اور مرتے رہے. قومی مفادات کے حصول کیلیئے ایک موثر مشترکہ محاذ کیسے تشکیل دی جاتی ہے، اگر کسی کو معلوم نہیں تو میرل کے افکار و کردار کے ساتھ ساتھ اس چھوٹے سے setup پر نظر ڈالیں جو میرل جیسے دوستوں کی انتھک محنت سے آج شور پارود میں پوری طرح سے فعال ہے۔ چھوٹے پیمانے پر اتحاد کے بعد میرل کی ہروقت یہی کوشش تھی کے اسی عمل کو وسعت دیکر قومی اشتراک عمل کی جانب بڑھا جائے جس کیلئے اپنے مرکزی دوستوں کے علاوہ بی ایل اے، بی آر اے اور یو بی اے کے مرکزی دوستوں کے ساتھ ہر وقت رابطہ میں رہتا۔ مشترکہ محاذ کو سنبھالے ہوئے میرل ہر گشت میں دوستوں کی کمان کرتے ہوئے آگے آگے ہوتا چاہے وہ ریاستی افواج، مشینری یا قبائلی معتبرین کی شکل میں تشکیل دیئے ہوئے بدنامِ زمانہ آئی ایس آئی کے ڈیتھ اسکواڈ ہوتے، ایک گشت سے لوٹنے کے بعد وہ اگلے mission کی تیاریوں میں جُت جاتا، کبھی خاران کے چٹیل میدانوں میں بالاچ بیرگیر کی کمان سےدشمن پر تیر برساتا، تو کبھی نوشکل کے سُرمئی پہاڑوں پہ مورچہ بند ہوکر نورا مینگل کے جُرت و للکار سے دشمن کی نیندیں اُڑانے کے بعد شور پارود میں آئی ایس آئی کے دلاروں پر قہر بن کر گرتا۔ وطن کے اس سچے عاشق کو نہ اپنے ذات کا غم تھا نہ ذات کے رشتوں کا غم، غم تھا تو صرف راجی بزگی و بے بسی کا، دن ہو یا رات، شور کی دل چیر دینے والی سردی ہوتی یا خاران کی جُھلسا دینے والی گرمی، حالات چاہے جتنے بھی ناموافق ہوتے، اُسے کوئی پرواہ نہ تھا بس اپنے کام میں مگن و منہمک رہتا۔ بیشک عظیم منزلوں کے مسافر ایسے ہی عظیم جہد کار ہوتے ہیں۔ آخری دنوں میں میرل سے اکثر فون پر بات چیت ہوتی رہتی تھی، میں ذات کا پُجاری اپنی کوتاہ بینی و کم فہمی کا مارا ہوا، جب اس سے بات کرتا اُسے پریشان ہی کرتا، آگے سے وہ ہنستےہوئےجواب دیتا ” پُھل اللہ حیر آ کہ کل چیز برابر بنت منی گو کماش و پیرین لشکر آ گپ بوھگ آ ئے انشا اللہ ھر چیز ٹہیت تو وتارا انکہ پریشان مہ کہ” اور وہ آخری میسج “جوانے پُھل اوار ان اللّہ ءِ باھوٹءِ اللہّ کلامءِ باھوٹءِ”۔

جاتے جاتے میرل ہمیں وہ سب کچھ سکھا گیا جنہیں اپنا کرہم اُن سیاسی جادوگروں و انقلابی مداریوں کی دکانیں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بند کرسکتےہیں، جو پچھلے کئی عشروں سے عالمی منڈی میں “بلوچ برائے فروخت” کا بینر اُٹھا کے بیھٹے ہیں۔ میرل ہمیں سکھا گیا کہ قابلیت، مخلصی، نیک نیتی، محنت، مہر و بےغرضی سے نفرتیں کیسے محبتوں میں بدل جاتی ہیں۔ مشکل سے مشکل کام کسطرح آسان ہوجاتے ہیںاور نا ممکنات کیسے ممکن ہوجاتے ہیں۔ میرل کا کردار موجود اور آگے آنے والے تمام جہد کاروں کے لیئے مشعلِ راہ ہیں یقین ہے کہ نوجوان نسل انہی چراغوں سے روشنی لیکر اندھیروں کی تسلط کو ختم کرینگے۔