قومی تحریک میں نوجوانوں کی اہمیت و بی ایس او کا کردار: تحریر: شاھبیگ بلوچ

987

کہتے ہیں دنیا میں کوئی بھی انقلاب یا جدوجہد نوجوان طبقے کے ہمراہ داری کے بغیر اپنے منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ پھر چاہے وہ جدوجہد ظالم حکمرانوں کیخلاف ہو یا پھر قومی آزادی کی تحریک ہو۔ اکثر سنا ہے کہ بزرگ/ بوڑھے لوگ جنگ کا آغاز کرتے ہیں لیکن اُس جنگ، اس مقصد کو اپنے منزل مقصود تک لےجانے والا طبقہ نوجوانوں کا ہوتاہے، جو کہ علم اور شعور سے لیس ہوکر دشمن کا بےباکی اور دلیری سے مقابلہ کرکے اپنے اندرونی اور بیرونی دشمن کو شکست دے کر قومی فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ بلکل اسی طرح آج بلوچستان میں بھی نوجوان طبقہ قومی غلامی کیخلاف سربکف کھڑے ہیں اور تمام تر ظلم و بربریت کو برداشت کرتے ہوئے آزادی کے شمع کو جلائے رکھے ہوئے ہیں تاکہ ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔

اپنی بات کو منوانے کی خاطر یا پھر اُسے وزن دار ثابت کرنے کیلئے نا تو روسی انقلاب سے لیکر چین، انڈیا ، کیوبا، ویتنام، کوسووہ، افریقہ اور کردستان کی تحریکوں کا مثال پیش کرونگا نا ہی چی گویرا، فیڈل کاسترو، عمر مختار، بھگت سنگھ ، نیلسن منڈیلہ اور مہاتما گاندھی کے اقوال پیش کرونگا۔ کیونکہ شہید غلام محمد نے ایک جگہ کہا تھا کہ ایک سچے اور مکمل انقلابی میں علم اور شعور کا ہونا حد درجہ ضروری ہے جو وہ تاریخ سے سیکھتا ہے لیکن بلوچستان آج خود ایک تاریخ بن رہی ہے، جہاں روزانہ ایک واقعہ علم اور شعور سے لیس کرنے اور سچا بنانے کیلیے کافی ہے۔ ہوسکتاہے شہید کے قول کو ان ہی لفظوں میں پیش نا کرسکوں لیکن ان کی باتوں کا مقصد جو راقم کے فہم میں ہے وہ یہ تھی کہ علم اور شعور حاصل کرنے کیلیے دوسروں کی تاریخ اور تحریک کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی اور حال کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بذات خود ایک بہت بڑی تحریک ہے۔

جیسا کہ اوپر شہید غلام محمد کا ذکر ہوا تو یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہید غلام محمد کی تربیت بھی بی ایس او کے پلیٹ فارم سے ہوئی جو کہ بلوچستان میں سب سے قدیم اور اب تک قائم طلبہ تنظیم ہے۔ آج سے پچاس سال قبل بلوچ طلبا نے اپنے حقوق کے حصول کی خاطر جس طلبہ تنظیم بی ایس او کی بنیاد رکھی تھی وہ آج بلوچ قومی تحریک میں مادر آرگنائزشن کی اہمیت رکھتی ہے۔ بی ایس او جس نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے کبھی سرکار تو سیاسی لٹیروں نے بی ایس او کو نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کی وہ نقصان دھڑے بندیوں کی شکل میں ہوئی ۔ بی ایس او پر پابندیوں کی شکل میں یا پھر تنظیم کے آرگن سمیت رہنماؤں کی گرفتاریوں یا شہادتوں کی شکلوں میں ہو۔ لیکن ان تمام تر کٹھن حالات اور سختیوں کا سینہ چیرتے بی ایس او ایک سرخ سمندر کی طرح اپنا کارواں رواں دواں رکھی ہوئی ہے۔ جس کی زندہ مثال آج بھی بلوچستان میں بی ایس او پر پابندی لگنے، تنظیمی رہنماؤں کا غیر قانونی اغوا اور بے دردی سے قتل یہاں تک کہ بی ایس او کے ہمدردوں کا قتل بذات خود ریاست کی شکست خوردگی اور بی ایس او کی محکمی کی زندہ مثال ہے۔

بی ایس او یا آج کے دور میں بی ایس او آزاد کہیں وہ طلبہ تنظیم ہے جس نے بلوچستان کی آزادی کی خاطر سرگرم سیاسی اور مسلح جدوجہد کرنے والی تمام تنظیموں کی خاطر کیڈر پیدا کرنے والی تنظیم ہے، جس کی زندہ مثال بی این ایم کے بانی قائد شہید غلام محمد بلوچ ، شہید لالا منیر بلوچ، شہید رسول بخش مینگل ، شہید ڈاکٹر منان، شہید محبوب واڈیلہ شہید آغا عابد شاہ بی آر پی کے مرکزی رہنما شہید شیر محمد بلوچ ، شہید سنگت ثناء بلوچ، شہید احمد داد بلوچ سمیت ہزاروں کی تعداد میں شہید اور زندانوں میں قید رہنماؤں سمیت آج بھی کثیر تعداد میں موجود رہنماؤں اور سیاسی ورکروں کی تربیت اور پہلی درس گاہ بی ایس او ہی تھی۔ جہاں انہوں نے دشمن کا سامنا ڈٹ کر کرنے اور اپنے اصولوں اور قومی تحریک کو اولیت دینے کا طریقہ سیکھا۔

اسی طرح مسلح جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے اکثر رہنماؤں کی سیاسی درسگاہ بی ایس او ہی تھا۔ جن میں میر عبدالنبی بنگلزئی، ڈاکٹر اللہ نظر، چیر مین بشیر زیب، استاد گلزار امام، میر واحد قمبر ، سنگت اختر ندیم اور ماسٹر سلیم کا نام شامل ہے۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں جو آج بھی بلوچستان میں جاری ظلم و زیادتی کیخلاف جدوجہد میں برسرپیکار ہیں اور دلوں میں قومی آزادی کا دیا جلائے رکھ کر ایک مکمل اور جمہوری بلوچستان کیلئے جدوجہد کررہےہیں۔

ان تمام تر باتوں اور لوگوں کا ذکر کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے، ان باتوں کو کرکے بی ایس او کے دوستوں سے شاباشی بٹورنے کا خواہشمند ہوں یا پھر خود بی ایس او کا ساتھی جو اپنی تنظیم کی تعریف کے پل باندھ رہا ہوں آپ جیسا سوچیں وہی سچ کیونکہ بی ایس او اگر میری تعریف کے بدلے مجھے شاباشی دے تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی اور اگر بی ایس او کا ممبر ہوکر یہ سب لکھ رہا ہوتا تو اس سے خوش نصیبی کی بات اور کیا ہوتی بہر حال ان تمام تر باتوں کو لکھنے یا پیش کرنے وجہ یہ کہ بی ایس او نے قومی تحریک کی خاطر کیا اور کس حد قربانی دی ہے۔ مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم اپنے آنے والی نسلوں کو شعور یافتہ اور سیاسی طورپر پختہ بنانا چاہتے ہیں جو ہر بات کو سُن کر اس پر جذباتی ہونے کے بجائے سوچ سمجھ کر علم مطالعہ اور شعور کے ترازو میں تول کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا اہل ہو تو یقینی طور پر اُسے ایک تنظیم سے وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں ہر ایک لیڈر کبھی ورکر ہوتا ہے اور جو بھی لیڈر بنتا ہو محنت مشقت اور شب روز کاوشوں کے ذریعے ہی بنتا ہے۔ اُس مقام اور عزت کو حاصل کرتا ہے جو کہ ویرانوں میں قید ذاکر مجید، زاھد بلوچ ، شبیر بلوچ ، یا شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوتا ہے جہاں شہید فدا احمد بلوچ ، شہید اسلم بلوچ ، شہید حمید بلوچ، شہید رضا جہانگیر، شہید وحید بلوچ، شہید امیر الملک، شہید قمبر چاکر، شہید الیاس نظر، شہید کامریڈ قیوم شہید سہراب مری سمیت ہزاروں شہداہ نوجوانوں اور پوری بلوچ قوم کیلیے مشعل راہ ہیں۔