عسکری اتحاد اور دشمن کی نئی چالیں:تحریر: جیئند بلوچ

1445

کل کا دن بلوچ تحریک کے حوالے سے بڑی اہم دن ثابت ہوئی۔ کل جو دو خبریں اس حوالے سے آئیں وہ بھی اہمیت کی حامل تھیں، پہلی خبر جس نے تحریک سے جڑے ہمدردوں اور بہی خوابوں کو مسرور و شاد کردیا۔

بی ایل ایف کے ترجمان کی خبر تھی جس میں بلوچ قومی تحریک کے ایک اہم جز بی ایل اے کے ساتھ اشتراک عمل کی بابت پالیسی تھی۔

کل ہی کی دوسری افسردہ اور فسوں ذدہ خبر پاکستانی حمیت سے عاری فوج کا قومی رہبر ڈاکٹر اللہ نظر کے بیوی اور ان کے بچوں کی اغواء کی تھی جس نے اندوہ مچادی، بلوچوں کو غم ذدہ اور ہیجاں میں مبتلا کردیا یہ بلا شبہ ایک صدمہ تھا جس کا سہنا انتہائی مشکل تھا دشمن کو معلوم تھا کہ وار کہاں کرنا ہے سو اس نے وہاں وار کردیا یہ کسی حمیت سے عاری دشمن کی جنگی پلان تھا جسے سوچ کر ترتیب دیا گیا تھا ہماری سوچ اپنی جگہ مگر وہ کامیاب رہا۔

اگر دیکھا جائے تو بی ایل ایف اور بی ایل اے کی جانب سے اشتراک عمل کا اعلان ناصرف قومی خواہشات کی تکمیل ہے جس کے لئے تحریک سے جڑے عناصر اور ہمدرد کافی عرصے سے جدوجہد کررہے تھے بلکہ وقت و حالات کی ضرورت بھی تھا کیوںکہ ایک ہی مقصد کے لئے جاری جدوجہد میں الگ الگ محاذ بنانا، ایک دوجے کا جدا راستے پہ چلنا، ایک دوسرے کو اس کے باوجود کہ مقصد ایک ہے برداشت نا کرنا تکلیف دہ تھا اس سے مایوسی کی شدت محسوس کی جاسکتی تھی جدا جدوجہد کو لے کر دشمن اور اس کے عناصر عوام میں بھڑک بازیاں بھی کرتے رہتے تھے۔

مگر اشتراک عمل کے اعلان کے بعد بھی چند ایک ایسے لوگ ایک ایک کر کے نظر آنے شروع ہوگئے ہیں جو بظاہر ہمدرد رہے ہیں لیکن باہمی اختلافات کو ہمیشہ ہوا دیتے رہے تھے۔ ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر اتحاد کی خواہش کے برعکس ان کا طرز بیان اور طریقہ واردات جداگانہ رہا تھا وہ  بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والے فارمولے پر عمل پیرا تھے۔

تنظیموں کے طریقہ کار بالخصوص بی ایل ایف پر ان کی نکتہ چینیاں، تنقید اور الزام تراشیاں سب سے بڑھ کر تھیں۔ وہ اتحاد کے بخار میں مبتلا تو تھے لیکن اب جبکہ اتحاد ایک عملی شکل میں سامنے آگئی ہے یہی لوگ اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے ہیں جس سے ان کا ظاہری طرز عمل اور اندرونی نیت آشکار ہوتی ہے یہ لوگ کون ہیں کس کے کہنے پہ ایسا کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں یہ لمحہ ایسا ہے کہ اب کسی کو رعایت نہیں دینا چاہیے جتنے مکروہ چہرے ہیں جن پر خوداری کا پلاسٹک چڑھا ہوا ہے انہیں بے نقاب کرنا چاہیے تاکہ ان کی نحوست دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ بن پائے۔

اتحاد مخالف عمل کے خلاف جتنے عناصر سرگرم ہیں انہیں بلاشبہ نواب زادہ حیر بیار مری کی تائید حاصل ہے کیوں کہ زبانی جمع خرچ کے برخلاف  حیر بیار بی ایل اے کی بی ایل ایف کے ساتھ اتحاد کے عملی شکل میں سامنے آنے سے کترا رہے تھے وہ محض الفاظ کی چابک دستی کے سہارے اتحاد اور یکجاہی کی راگ الاپتے رہے ہیں اب جب بی ایل اے کے برسر زمین قیادت نے محسوس کیا ہے کہ الگ الگ جدوجہد قبولیت کا حامل نہیں ہوسکتا اور اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں آرہے ہیں تو وہ اتحاد کی راہ پہ آگئے جو بلا شبہ ایک مقبول فیصلہ ہے البتہ اسے  حیر بیار کی رضا و رغبت حاصل نہیں ہے اس لیئے ان کے جتنے قصیدہ خواں ہیں وہ اپنی نحوست کے ساتھ ایک ایک کر کے سامنے آرہے ہیں  حیر بیار کا کردار اتحاد مخالفت یا ٹوٹ پھوٹ میں کسی تعریف کا محتاج نہیں اس پہ پھر بات ہوگی۔

بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اشتراک عمل کے ساتھ بی آر اے اور یو بی اے جو عسکری محاذ پر منظم اور سرگرم ہیں ان کا امتحان شروع ہوگیا ہے وہ کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے البتہ عوامی خواہش ضرور یہ ہے کہ بی آر اے اور یو بی اے وقت کا ادراک رکھتے ہوئے اس اشتراک عمل کو اپنی شراکت سے مذید بہتر منظم بناسکتے ہیں۔
بی آر اے کے سرکردہ کمانڈر واجہ گلزار امام اور یو بی اے میں محترم بنگلزئی و قادر مری مجنھے ہوئے رہنما ہیں ان کے سیاسی سوچ اور حکمت کسی سے پنہاں نہیں ہیں ان سے بڑی توقعات ہیں کہ حالات کی نزاکات کا بھرم رکھیں گے۔

بی آر اے اور یو بی اے کی قیادت جن کا عسکری کردار بلاشبہ بلند ہے اور وہ زمین میں رہ کر تمام تر حالات و واقعات کا بچشم خود گواہ ہیں کس طرح اکیلے جدوجہد برقرار رکھ سکتے ہیں یہ ان پہ منحصر ہے لیکن مجموعی قومی مفادات کا یہ تقاضا ان سے بھی ہے کہ وہ اتحاد کے لئے عوامی خواشہات کا لحاظ رکھیں۔

اگر دشمن کی چالاکیاں دیکھی جائیں تو وہ روز نت نئے گر آزما کر جنگ کو نئی سمت لیجانے کی کوشش کررہی ہے۔ کل ڈاکٹر اللہ نظر اور استاد اسلم کے خاندان سے عورتوں اور بچوں کے اغواء کا عمل دشمن کی نئی چالاکیاں ہیں وہ اس طرز عمل کو یہاں سے بطور ٹیسٹ کیس شروع کر کے اس کا دائرہ آہستہ آہستہ ہر اس فرد تک لیجا ئے گا جو تحریک کا ہمدرد ہے۔ اس عمل کے خلاف اکھٹے رہنا، بلوچ مائوں اور بہنوں کی حفاظت کے لیئے نئی حکمت عملیاں تشکیل دینا، دشمن کی چالوں کو سمجھ کر جنگ کو مزید پھیلانا اور وسعت دینا اور اسے دشمن کے ہر کونے تک لے جانا مشترکہ عمل سے ممکن ہے۔

یہ ہمارا محض خیال ہوسکتا ہے کہ دشمن بزدل ہے جو عورتوں کو اغواء اور زیر زندان کررہی ہے مگر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس دشمن سے ہمارا پالا پڑا ہے اس میں اخلاقی ا اقدار کا شروع دن سے فقدان ہے۔اس بے حمیت اور گری ہوئی دشمن سے بدتر سلوک کی توقع کرنا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں ہم کیا کررہے ہیں، ایک اخلاق باختہ دشمن کے ساتھ دوران جنگ ہاتھ ہلکا کرنا انہیں اس کے موافق جواب دینے سے گریز کرنا کس طرح سودمند ثابت ہوسکتا ہے اس پہ سوچنا اور نئی حکمت عملیاں ترتیب دینا بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ دشمن کے جتنے دوست ہیں انہیں نقصان پہنچا کر یا انہیں اسی زبان میں جواب دے کر جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ گوکہ دشمن کو اپنے بلوچ ہمدردوں اور دلالوں کا نقصان اتنا غم ذدہ نہیں کرتا مگر ان کی راہیں ضرور مسدود ہوسکتی ہیں کم از کم اپنا غم اس سے بانٹا جا سکتا ہے۔ دوران جنگ دشمن کے ساتھ اس حد تک چلے جانا کہ انہیں درد سہنا پڑے حکمت اور باہمی اشتراک عمل کا تقاضا ہے