بلوچ قومی تحریک کی پذیرائی اور پاکستان کی عالمی تنہائی
تحریر: حکیم واڈیلہ بلوچ
متعینہ وقت اپنے تمام تر خارجی و داخلی عناصر کو لیکر آگے بڑھتی ہے۔ جز و کل کو امکانات کے قالب میں ڈھال کر تیز رفتاری سے روا ں دواں ہوتا ہے۔ جب حالات و وقت کو سمجھنے میں غلطی ہو تو تباہی مقدر بن جاتی ہے۔ رونما ہونے والے حالات و واقعات کو صحیح ادراک کے ساتھ پرکھنا اور ان کے مطابق ہی فیصلہ کرنا کامیابی و کامرانی کا زریعہ بنتے ہیں اور پھر منزل قریب تر ہوجاتا ہے، ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ازل سے یہی ہوتا آرہا ہے اور ابد تک یہی ہوتا رہے گا۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیشن کے دوران آزادی پسند پارٹیوں سے وابسطہ سارے دوستوں نے وقت اور حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاکر جنیوا اور یورپ کے دوسرے شہروں میں قوت بخش مہم چلاکر عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس عالمی مہم کی بازگشت نیویارک میں اقوام متحدہ کے جاری اجلاس میں سنائ دی۔ جہاں نارتھ امریکہ(کینڈا) کے دوستوں نے مظاہرے اور کانفرنس منعقد کیئے۔ اس بھرپور کامیاب مہم کو بین الاقوامی میڈیا میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ایک ادنی’ سا سیاسی طالب اور بلوچ قومی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے میں خود بھی یورپ کے اجلاسوں اور مظاہروں میں شریک رہا۔ ایک متاثر کن صورتحال جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی، وہ یہ کہ اس مہم میں تمام آزادی پسند پارٹیوں کے کارکنوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی، اتحاد اور یکجہتی و تعاون نظر آئی۔
اس زبردست مہم نے پاکستانی ریاستی عناصر کی نیندیں اڑادی۔ پاکستانی نام نہاد میڈیا پرنٹ اور ٹی وی چینلز جن میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر اینکر بیٹھے ہوئے آگ بگولہ ہوگئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان پر کوئی عذاب نازل ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں قابض فوج کے جنرل قمر باجوہ نے اضطرابی کیفیت میں ایک بیان داغ دیا کہ بیرون ملک بیٹھے لوگ جلد قانون کے گرفت میں آجائیں گے۔ اس قابض جنرل کو شاید اندازہ نہیں کہ بیرون ملک مقیم آزادی پسند رہنما اور کارکن نہ تو تمھارے قانون کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ تمھارے قابض ریاست کو۔ اس چغاداری جنرل کو معلوم نہیں کہ تمہاری غیرفطری ریاست کی عالمی طور پر نہ کوئ اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی عزت ہے۔ اس جنرل کو پتہ بھی نہیں کہ اسکے نام نہاد قانون، بین الاقوامی طور پر کسی اور ملک میں نہ ہی لاگو ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے ان جابرانہ پالیسیوں و قوانین کو بین الاقوامی برادری مانتی ہے۔ انہیں یہ تک خبر نہیں اقوام متحدہ اور عالمی برادری پاکستانی نام نہاد قانون اور اس کے حکمرانوں اور جنریلوں کے پابند نہیں۔ پاکستانی ریاست دنیا بھر میں ایک تماشے سے کم نہیں اور پاکستانی حکمران و جنرل مداری سے بھی بدتر ہیں۔ اگر اس چغاداری جنرل کو اتنا گھمنڈ ہے تو دنیا کے کسی کمزور سے کمزور ملک پر اپنا قانون نافذ کر کے دکھا دیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ تارے دن کو بھی نکلتے ہیں محض رات کو نہیں۔
بہرحال پاکستانی قابض ریاست آج جس قدر تنہا و بے بس کھڑے ہیں اور اس کے حکمران و جنرل آج اپنے دوغلے پن کی وجہ سے جس صورتحال سے دوچار ہیں اور ان حالات میں اس طرح کی باتیں خود ان کے ذہنی کیفیت کا پتہ دیتا ہے۔
اب یہ بات طے ہے کہ بین الاقوامی طور پر پاکستانی ریاست اسکے حکمرانوں اور جنریلوں کا ایف آئی آر کٹ چکا ہے، صدر امریکہ ٹرمپ نے پالیسی بیان دیکر اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ اب امریکہ اور عالمی برادری اس ریاست کو ضرور سزا دینگے۔ دہشت گردوں کے اس مرکز کو کسی بھی طرح معاف نہیں کیا جائے گا۔ حقانی نیٹ ورک، طالبان، لشکر طیبہ اور دوسرے پاکستانی ریاست کے پیداگیر اور اثاثہ جات، اس سارے خطے میں عدم استحکام کا سبب ہیں۔ ان کی کمین گاہیں اور تربیتی مراکز پاکستان میں ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان ایک پرخطرایٹمی ذخائر رکھنے والے ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی عدم استحکام کا شکار بھی ہے۔ اس کے ایٹمی اسلحہ(جو چین کے مہیا کردہ ہیں) اس خطے میں اپنی داداگری کیلئے ہیں۔ اس کی فوج بہت ہی رجعتی ذہنیت رکھتی ہے۔ سنگ دلی اور سفاکی اس کا طرہ امتیاز ہے۔ اس لئےامریکہ اور عالمی برادری کیلئے اس ریاست کے عزائم بہت خطرناک ہیں۔ جب ایک بار کسی خطرناک ملک کے خلاف بین الاقوامی F.I.R کٹ جاتی ہے پھر تو اسکی سزا یقینی ہوجاتی ہے۔
پاکستان اندرونی طور پر انتشار میں مبتلا ہے۔ اس کے جنرل خود پاکستانی سیاسی عناصر کو برداشت کرنے کیلئے کسی بھی طور پر تیار نہیں۔ اسمبلیاں اور آئین صرف نمائش ہیں، جن کی حیثیت رتی برابر بھی نہیں۔ پاکستان میں روز تماشے ہوتے ہیں اور دنیا ان تماشوں سے لطف اندوز ہوتی۔ دنیا میں اس کی کوئ اہمیت نہیں پاکستانی حکمران دنیا میں سیر سپاٹوں کو جاتے ہیں اور ان سیر سپاٹوں کو سرکاری دوروں کا نام دیتے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستانی فوجی جنریلوں نے اپنے طفیلی ہونے کی حیثیت سے خوب دولت کمائ اور بڑے مزے کیئے اور دنیا کو دھوکہ دیتے رہے۔ اب وہ زمانہ کب کا گذرچکا۔ چین کی نام نہاد دوستی کا خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور چینی قیادت ان سے اس حد درجہ خوش ہوتے ہیں کہ چلو یوں ہی سہی۔ مختصر یہ کہ اب ان کے ہوش اڑ گئے ہیں کہ جو ایف آئی آر کٹ چکا ہے اس پر کب عمل ہوگا۔
اس سارے صورتحال میں بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک اور تاریخ میں پہلی بار پوری دنیا میں بے پناہ توجہ و پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ اب بات صرف تدبر، دانائ،صحیح وقت مکمل جرات کے ساتھ امریکہ سمیت یورپی یونین، اقوام متحدہ، بین الاقوامی انسان دوست تنظیموں پارلیمنٹ کے نمائندوں کے سامنے واضح موقف کو پیش کرنا از حد ضروری ہے۔ یہ کام بیرونی ملک مقیم ہمارے رہنما، دانشور اور کارکن ہی کرسکتے ہیں اور اب کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ بلوچ وطن میں موجود مظلوم بلوچ قوم اور گل زمین کے پہاڑوں میں دشمن سے برسرپیکار ہمارے عظیم سرمچاروں کی نظر ان رہنمائوں اور کارکنوں پر مرکوز ہے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارے عظیم سرمچاروں اور بلوچ قوم کے شہیدوں نے اپنے خون سے تحریک کی آبیاری کی ہے۔ قابض ریاست ہمارے عظیم سرمچاروں سے ہی خوف کھاتا ہے، اس لئے انہیں کچلنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ آئیے ہم سب دل کی گہرائیوں سے اپنی جدوجہد کو عالمی برادری، یورپ اور یو ایس اے سے ہم آہنگ کریں تاکہ اس ظالم قابض ریاست سے اپنی مادر گل زمین اور بلوچ قوم کی آزادی کے لئے اپنا حصہ ڈالیں تاکہ مادر وطن آزاد ہوکر اپنے فرزندوں کو روشن مستقبل دے سکے اور عالمی برادری بھی اس غیر فطری ریاست سے چھٹکارا پاسکے جو ساری دنیا کے امن پسند انسانوں کے لئے دہشت کی علامت ب چکی ہے۔