ہوشاب سے دی بلوچستان کے نمائندے شوہاز بلوچ کی رپورٹ
کہتے ہیں کہ کوئی معاشرہ اگر تعلیم جیسی نعمت سے محروم رہے تو پھر وہ قوم یا معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، بلکہ تعلیم کی فقدان کی وجہ سے اُس معاشرے میں رہنے والے لوگ سماجی برائیوں ،منشیات و دوسری باقابل قبول حرکات کی زد میں آکر اپنی زندگیوں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔
تعلیم آجکل ہرقوم کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے، ایک قوم اُس وقت تک کامیابیوں کی بلندیوں کو جا نہیں سکتا جب تک وہاں کے لوگ تعلیم یافتہ نہ ہوں اکیسویں ویں صدی میں کسی قوم کو تعلیم سے دور رکھنے کا مطلب اُس قوم کو تباہی کی جانب دھکیلنا ہے، خاص کر اگر کسی قوم میں عورتیں تعلیم سے دور رہیں پھر اُس قوم کاترقی کرنا ناممکنات میں شامل ہوتا ہے، اگر تاریخ کو حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو تاریخ میں عورتوں کا کردار ہمیں ہمیشہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
تربت: امداد بجیر کی لائبریری کو فورسز نے جلادی
آج عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم کی جانب راغب ہو رہے ہیں عورتوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا مطلب اُس قوم کو تعلیم سے دور رکھنا ہے خاص کر بلوچ معاشرے میں جہاں پہلے تعلیمی حوالے سے لوگ انتہائی پیچھے ہیں۔
آج اسی طرح کا ماحول ہمیں بلوچستان کے کونے کونے میں دکھائی دیتا ہے کہ ریاست عورتوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ ہمیشہ ایک سامراج کی یہی کوشش کہ کسی غلام قوم کو مزید غلام رکھوں تو وہ ان کے تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جائے،اس قوم کے لوگوں کو تعلیم جیسی نعمت سے دور رکھنے کی کوشش کرتاہے ،ریاست پاکستان بھی بلوچستان میں اسی تسلسل کو جاری رکھا ہوا ہے۔
نوشکی و پنجگور گرلز کالج میں لیکچرارز کی کمی
چار سال پہلے ہوشاب میں ایک گرلز کالج کا اعلان ہوا جیسے کے ہمیشہ الیکشن کے وقت ایسے اعلانات ہوتے رہتے ہیں گرلز کالج کے اعلان کے بعد ہوشاب و اِرد گرد میں بسنے والے لڑکیاں خوشی سے جھومنے لگے کیونکہ ایسے پسماندہ علاقوں میں لڑکیاں صرف اپنے علاقائی پڑھائی تک محدود رہتے ہیں کالج کے اعلان کے بعد تعلیم حاصل کرنے والے لڑکیوں کے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ کالج بننے کے بعد وہ اپنی تعلیمی زندگی میں دو سال کا اضافہ اور کر سکتے ہیں اور ابھی آگے بڑھ سکیں گے
لیکن وہ صرف ایک وعدہ تھا جیسے سیاستدان ہمیشہ الیکشن کے وقت کرتے رہتے ہیں آج پانچ سال مکمل ہو چُکا ہے لیکن کالج کی عمارت تعمیراتی کاموں تک محدود ہے پانچ سال کے عرصے میں کالج کی انتظامیہ نے عمارت کا آدھا حصہ تک مکمل نہیں کیا ہے، وہ آنکھیں جو ایف ایس سی مکمل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے وہ آخرکار تھک گئے آج ایک اور جنریشن وہی خواب دیکھ رہی ہے جو پانچ سال پہلے اُن لڑکیوں نے دیکھی تھی، لیکن آج بھی کوئی اُمید نظر نہیں آتی کالج کی عمارت آج تک وہی کا وہی ہے جو پہلے تھی انتظامیہ مہینے کا تنخواہ تو ضرور لیتی ہے لیکن عمارت کی طرف اُس کی آنکھیں کبھی بھی نہیں پڑتی، اور ہوشاب کا جو دوسرا بوائز کالج ہے جہاں لڑکے تعلیم سے آراستہ ہوا کرتے تھے اب وہ بوائز کالج ایف سی کیمپ میں تبدیل ہو چکا ہے
لیکن بولنے والا کوئی بھی نہیں۔