امریکی حکام نے اس خدشے کے اظہار کیا ہے کہ کیوبا میں ان کے سفارت خانے پر صوتی حملہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں سفارت خانے کے 19 اہلکاروں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔
حکام کے مطابق ان کا خیال تھا کہ یہ حملہ کئی ماہ قبل ختم ہو چکا ہے۔
امریکی سفارتی اہلکاروں کی یونین کے مطابق کئی اہلکاروں کی قوت سماعت متاثر ہوئی ہے جبکہ کچھ کو دماغی تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
صوتی حملے میں صوتی آلات سے نہ سنائی دینے والی صوتی لہریں نکالی جاتی ہیں جو بہرا پن کا باعث بنتی ہیں۔
کیوبا نے اس حملے میں کسی بھی طور پر ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیق کر رہے ہیں۔
امریکی سفارتی خانے کے اہلکاروں کے علاوہ کینیڈا کے بھی ایک شہری نے بھی صوتی حملے سے متاثر ہونے والی علامت کا ذکر کیا تھا۔
یہ معاملہ سب سے پہلے اگست میں سامنے آیا تھا جب امریکہ نے کیوبا کے دو سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔ یہ بے دخلی بطور احتجاج کی گئی تھی کہ کیوبا امریکی اہلکاروں کی حفاظت میں غفلت دکھا رہا ہے۔
جمعے کو امریکی حکومت نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ واقعہ حال ہی میں رونما ہوا ہے اور سفارتی اہلکاروں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے اس کی شکایت کی ہے۔
امریکن فارن سروسز ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا انھوں نے دس افراد سے بات کی ہے جو اس حملے میں متاثر ہوئے تھے جس کے بعد ان کا علاج ہوا ہے۔
ان کے مطابق ‘صوتی حملے کی صورت میں دماغی بیماری اور مستقل قوت سماعت ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے اور اس کے علاوہ متاثرہ شخص کا توازن خراب ہو سکتا ہے اور شدید چکر آ سکتے ہیں۔’
تنظیم نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے کہ متاثرہ افراد کی پوری مدد کی جائے ‘اور ایسے واقعات دوبارہ نہ رونما ہوں۔’
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ابھی تک کسی پر اس حملے کی ذمہ داری عائد نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ 2015 میں سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں پچاس سال کے بعد امریکہ نے کیوبا میں اپنا سفارت خانے کھولا تھا۔