عبدالغنی بلوچ
ایک ہوتا ہے ‘زندگی برائے زندگی ‘ اور ایک ہوتا ہے ‘زندگی برائے مقصد’۔
زندگی برائے زندگی سے مراد اپنی زندگی کو بغیر کسی مقصد کے اپنے اور اپنی ذات کے لیے گزارنا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس تعلیم نہیں ہوتی ہے، جو تعلیم جیسی دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ جن کے پاس تعلیم نہیں ہوتی ہے وہ بغیر کسی مقصد، بغیر سوچ و فکر اور بغیر کسی نظریے کے زندگی گزارتے ہیں۔
زندگی برائے مقصد سے مراد اپنی زندگی کو کسی مقصد کے لیے، کسی سوچ و فکر اور کسی نظریے کے اندر رہ کر گزارنا۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو تعلیم جیسی دولت سے آراستہ ہوتے ہیں، کیوں کہ تعلیم کے بغیر انسان کی زندگی میں اندھیرا ہوتا ہے اور تعلیم سے دور رہنے والے لوگ غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
کہتے ہیں جب کسی علاقے میں یا کسی قوم میں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں، وہاں تعلیمی انقلاب آجاتا ہے۔
ضلع نوشکی بھی ایک ایسا علاقہ ہے جس نے بہت سے ایسے لوگ پیدا کیے ہیں، آنے والی نسل نوجوان طبقہ ان کی خدمات کو یاد کر کے بڑا فخر محسوس کرتی رہے گی۔
گل خان نصیر، ماماعبداللہ جان جمالدینی، اور منیر بادینی جیسے لوگوں کے علاقے کے ڈگری کالج پر نظر دوڑاتے ہیں جو کہ 1974ء کو بنایا گیا ہے. جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی موجودہ پوزیشن کیا ہے تو ہمیں خاطرخواہ تسلی نہیں ملتی، کیوں کہ یہ واحد بوائز ڈگری کالج علاقائی لوگوں کی تعلیمی ترجیحات میں عملی طور پر شامل نظر نہیں آ رہا ہے، جو کہ وہاں کے لوگوں کے ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
کالج کی عمارت کسی بھی زاویے سے ایک ڈگری کالج کا منظر پیش نہیں کرتی، ایسا لگتا ہے کہ دن بدن عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ کئی سالوں سے رنگ کے ساتھ ساتھ کنسٹریکشن کا کام نہیں ہوا ہے۔ کالج کی چاردیواری میں داخل ہوکر دیکھ لیں تو صرف ایک سنسان سی پرانی بلڈنگ نظر آئے گی، وہ اس لیے کہ طلبا کی تعداد 1300 کے لگ بھگ ہے لیکن روزانہ کی حساب سے صرف 50 طلبا حاضر رہتے ہیں۔
کہتے ہیں معاشرے کو برائیوں سے بچانے کے لیے اور نوجوانوں کو منشیات جیسی لعنت و بیماری سے دور رکھنے کے لیے کھیل کے میدانوں کو آباد کرنا چاہیے، لیکن کالج کھیل کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں. ایسا لگتا ہے کالج انتظامیہ کی ترجیحات میں کھیل شامل نہیں ہے۔
بیالیس سال ہوئے اس کالج کو لیکن ابھی تک کچھ مضامین کے لیکچرارز نہیں ہیں، جیسے جغرافیہ، اکنامکس، اسٹیٹکس اور آئی ٹی وغیرہ۔
گل خان نصیر اور ماما جمالدینی کے دیار کے کالج لائبریری میں 8000 سے 10000 تک کتابیں تو موجود ہیں لیکن پڑھنے والا کوئی نہیں ہے. کمپیوٹر لیب کے نام پر 3 سال پہلے ایم پی اے نوشکی نے ایک عمارت تعمیر کروائی لیکن سامان سے خالی ہے. جب بھی سامان کے حوالے سے ایم پی اے سے بات کی جائے تو فنڈ نہ ہونے کا بہانہ کر کے بات کو ٹال دیتے ہیں۔ بوائز ہاسٹل کی عمارت مکمل طور پر بوسیدہ ہو چکی ہے، رہنے کی قابل نہیں ہے۔ ایک المیہ یہ ہے کہ کالج کی طرف سے ایک میگزین “خیصار” کے نام سے شائع ہوتا تھا، جو کہ ابھی 6 سال سے بند ہے۔
ان ساری صورت حال کے بارے میں جب پرنسپل صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ 4 سال سے بحیثیتِ پرنسپل فرائض سرانجام دے رہے ہیں، آپ اس صورت حال کا ذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو بری ذمہ کر کے برجستہ جواب دیا کہ معاشرہ اس کا ذمہ دار ہے۔
میرے خیال میں کچھ حد تک معاشرے کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، لیکن علاقے کے عوامی نمائندے، تعلیمی ایمرجنسی کے نعرے لگانے والے حضرات، دانش ور طبقہ اور پرنسپل بشمول کالج انتظامیہ کے سب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔