ساقی یار چلو آج ہی اپنا مشن مکمل کر لیتے ہیں
ساقی: نہیں یار کل چلتے ہیں بی ایل اے کے دوستوں کے کچھ کام ہیں آج میں انکے ساتھ مصروف رہوں گا
یار پہلے اپنا کام کرتے ہیں پھر انکا دیکھا جائے گا
ساقی:(بڑا قہقہہ لگاتے ہوئے) کون ہم ،کون وہ…. یار ہمیں “میں” سے نکل کر “ہم” کیلئے سوچنا چاہیئے۔
یہ انمول فقرہ میرے انمول دوست شہید منان بلوچ عرف ساقی نے مجھ سے کہا تھا.میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہر دیوان می دوستوں کے باتوں کو خاموشی سے سن کر سمجھی یا نا سمجھی میں قہقہہ لگا کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا میرا یہ دوست اتنی گہرائی سے سوچتا ہے
20 اگست 2017ء کو میرے ایک دوست نے یہ جملہ میرے کم بخت کانوں تک پہنچائی”یار…..! 18 اگست کو دشمن نے ایک بلوچ آبادی پر مشتمل گاؤں پر دھاوا بول دیا، جس کا دفاع کرتے ہوئے ساقی شہید ہوا ہے”
یہ سن کر میں بالکل سُنّ ہوگیا اور آنے والے دوستوں کو پانی پلانا بھی بھول گیا. کئی دنوں سے میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن لکھ نہیں پا رہا تھا۔ شاید میرا قلم کمزور ہے یا میں خود اس خوف میں ہوں کہ میرے الفاظ شہید کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے۔ہاں حقیقتاً میرے الفاظ میں اتنی دم اور طاقت کہاں ہے کہ شہید کے کردار کو بیان کر سکوں. لیکن پھر بھی کچھ لکھنے کیلئے دل بے قرار ہے
ویسے زندگی میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور سب کے ساتھ رشتے عارضی ثابت ہوئے، کیونکہ میں نے اپنی زندگی کو ایک ایسی پر کٹھن تحریک کے حوالے کیا ہوا ہے جہاں سے واپسی نا ممکن ہے. اس تحریک میں بھی بہت سے دوستوں سے واسطہ پڑا جن میں ایک شہید ساقی بلوچ تھا
شہید ساقی سے پہلی ملاقات 2014ء میں ہوا جب میں نیا نیا مسلح جہد میں شامل ہوا تھا۔ میں نے ساقی کو ملنسار طبیعت کا انسان پایا جو ہر وقت خاموش رہتا تھا۔ میں یہی سوچتا تھا کہ اسے ضرور کچھ ہوا ہے یا ہماری سیاسی باتوں سے ناواقف ہے لیکن میرے اندازے غلط ثابت ہوئے کیونکہ ساقی تحریک کے بارے میں بڑی گہرائی سے سوچتا تھا. بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے تعلق رکھتے ہوئے اس نے کبھی بی ایل ایف، بی ایل اے اور دوسرے آزادی پسند تنظیموں میں فرق نہیں رکھا۔ سب کے کاموں کو قومی فریضہ سمجھ کر یکساں طور پر اپنا حصہ ڈالتا تھا
کیمپ کے اندر ہم اکثر شطرنج کھیلتے تھے اور میں شہید کو باتوں میں مگن کر کے جیتنے کی کوشش کرتا تھا لیکن ہر بار میں ناکام ہو جاتا کیونکہ شطرنج میں گھوڑے کی چال بڑی عجیب ہوتی ہے، جو بھی اس چال کا ماہر ہو اسے ہرانا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور ساقی بڑے مہارت سے گھوڑے کا چال چلتا تھا اور صرف دونوں گھوڑے دوڑاکر مجھے چیک میٹ کر دیتا تھا
تمام مشقت اور تکالیف کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا اور قوم کے درد کو محسوس کرکے بس مسکرا دیتا تھا. ایک دفعہ جب کیمپ سے نکل رہا تھا میں نے پوچھا ساقی یار واپس کب آؤگے؟ تو اس نے مسکراکر کہا شادی کرکے آجاؤنگا. میں نے کہا یار اتنی جلدی کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ پتہ نہیں پھر اپنے محبوب کو پاسکوں گا یا نہیں؟
ایک دن میں اور میرا ایک انتہائی قریبی ساتھی ساقی کے گھر گئے وہاں ہمیں پتہ چلا کہ ساقی کی شادی کے رسومات چل رہے ہیں اور بن بلائے یا ہماری اتفاق سے شادی میں شرکت نے ہمیں بھی ایک فکری اور نظریاتی دوست کی شادی کی خوشیوں میں شرکت کا سنہری موقع نصیب ہوا۔
اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کے باوجود جب بھی کوئی تنظیمی کام ہوتا یا جنگ کے لئے جانا ہوتا تو ہر کام میں پیش پیش رہتا تھا. تنظیمی کاموں میں کبھی رکاوٹ نہیں آنے دیتا تھا
جب 18 اگست 2017 ء کو دشمن فوج نے اپنے 8 ہیلی کاپٹروں کے ساتھ نوشکی کے علاقے دوسہہ میں عام آبادی پر دھاوا بولا تو شہید ساقی نے عام آبادی کی حفاطت کے لئے اپنا اسنائپر اٹھا کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیئے دشمن سے دو بدو لڑنے لگا اور دشمن کے کئی اہلکاروں کو ہلاک کرکے خود ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا.شکست خوردہ دشمن اپنے کئی کرایے کے ساتھیوں کی ہلاکت سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی سفاکیت کا حسب روایت مظاہرہ کرتے ہوئے شہید کی جسد خاکی کو ورثا کے حوالے کرنے کی بجائے اپنے ساتھ لے گیا ۔
شہید ساقی آپ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن آپ کی فکر اور نظریہ ہر بلوچ کے دل میں زندہ ہے. اور شہید کبھی مرتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں