پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اپنے حالیہ اجلاس میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ الزام عائد کیا گیا جبری گمشدگیوں میں پاکستانی خفیہ ادارے ( آئ ایس آئ، ایم آئی) ملوث ہیں۔ جس کی وجہ سے لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے۔
سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ قانون ساز چاہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو کسی الزام میں اٹھایا گیا ہے تو اُسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہمارے علم میں ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں اور پھر ان کا برسوں، مہینوں، ہفتوں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ ہیں کہاں اور ان کو کسی کورٹ آف لا میں پیش نہیں کیا جاتا۔
سینیٹر نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی کمیٹی نے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاويد اقبال کو بھی کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا تھا تاکہ وہ بتا سکیں کہ اب تک کتنے لوگوں کی بازیابی عمل میں آ ئی ہے۔ تاہم جسٹس ریٹائرڈ جاويد اقبال نے کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی جس پر کمیٹی کے اراکین کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن کے چیئرپرسن زہرہ یوسف کے مطابق جبری گم شدہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہیں ۔مگر ان کی درست تعداد کے بارے میں کہنا ا س لئے مشکل ہے کیوں کہ ہر کیس کو رجسٹرڈ کرنا ممکن نہیں ۔ زہرہ یوسف کے مطابق بلوچ قوم پرست افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور گذشتہ کچھ مہینوں میں یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سندھ میں بھی ان افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔جبری گمشدگی کے اس سلسلے میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ کے مطابق اب تک 35540افراد گم شدہ، دس ہزار تک مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں ان میں 2000 ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ حکومت تو بالکل ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اور ان میں آئی ایس آئی، ایم آئی، اور ایف سی کے اہل کار ملوث ہیں۔ ہمیں زبردستی خاموش کیا جاتا ہے۔