جامعہ کراچی نے طلبا کا ریکارڈ ایجنسیوں کو دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
جامعہ کی انتظامیہ داخلے کے خواہشمند طلبہ کے لیے مقامی تھانے کا کریکٹر سرٹیفکیٹ جمع کرانے کو بھی ضروری قرار دینے پر غور کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس اقدام کے لیئے جامعات کے طلبا کےدہشتگردی میں ملوث ہونے کا جواز پیش کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں جامعہ کراچی میں وائس چانسلر کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں ڈینز اور انتظامی افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں جامعہ کراچی کی رہائشی کالونی میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق جامعہ کی کالونی میں رہائش پذیر افراد کا ریکارڈ بھی جمع کیا جائے گا۔
واضع رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بلوچستان کے کئی جامعات میں ایجنسیوں اور حکومت کی جانب سے اس قسم کی کاروائیاں کی گئی ہیں، جہاں جامعہ بلوچستان اور بلوچستان انجینئیرنگ یونیورسٹی خضدار سمیت کئی کالجوں میں فوج کی تعیناتی، آئے روز ہاسٹلوں میں چھاپے اور کئی درجن طلبہ کو حراست کے بعد لاپتہ کیا گیا، جن میں سے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں اور کئی آج دن تک لاپتہ ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل جامعہ کراچی کے چند اساتذہ جو ریاست پر تنقید کرتے تھے، انھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے قبل بلوچستان کے ان جامعات کے کچھ پروفیسرز کو بھی اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے کے مطابق کچھ سیاسی حلقے، طلبہ اور اساتذہ یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ انتظامیہ یا ایجنسیوں کی جانب سے کیئے جانے والے ان اقدامت کی وجہ دہشتگردی کے واقعات نہیں بلکہ طلبہ و اساتذہ کا اظہار خیال، کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا یا کسی مسئلے پر اٹھنے والی آواز کو دبانا ہے۔