غیر فطری ریاست پاکستان کی تخلیق سے لیکر آج تک اس کے ساتھ چلنے اور اسکو چلانے والے سب کو اچھی طرح پتہ ہے کہ امریکہ برطانیہ اور چین وغیرہ ہیں۔ اس تناظر میں تو اپنے آپ کو پاکستانی کہنے والا ہر شخص بیرونی قوتوں کا ایجنٹ ہی کہلائے گا۔ یعنی کیا بطور فطری یا غیر فطری ریاست کے بھیگ مانگنا اور دوسروں کی ٹکڑوں پر پلنا اور جینا حرام اور ناجائز نہیں؟ لیکن جب ایک تاریخی و فطری بلوچ ریاست کے بحالی کیلئے جب بلوچ قوم دنیا سے مدد لیتا ہے یا مدد لینے کی کوشش کرتا ہے تو پھر یہ کیوں ناجائز حرام اور بیرونی قوتوں کا ایجنٹ کہنے مستحق قرار پائیں؟ یعنی شروع سے لیکر آج تک بلوچ جہدوجہد اور بلوچ جہدکاروں کو کبھی انڈین کبھی روس کبھی اسرائیل اور کبھی افغانستان کا ایجنٹ کہنا اور پورے بلوچ قومی جہدوجہد اور جہدوجہد کی تاریخی تسلسل کو دوسروں کی ایجنڈے پر کام کرنے اور دوسروں کے جنگ کی نام دینا دراصل بلوچ قوم کے اندر بلوچ جہدوجہد کی اہمیت و افادیت کے ساتھ بلوچ جہدکاروں کی قربانی خلوص اور بہادری کو زائل و مشکوک اور متنازعہ بنانے کی ایک حقیر کوشش ہے تاکہ بلوچ جہدوجہد بلوچوں میں مبہم اور متنازع ہوکر بلوچوں میں مقبولیت اور ہمدردی حاصل نہ کرپائے اور بلوچ اس جہدوجہد کو اپنا قومی جنگ نہ سمجھتے ہوئے اسے اپنے قومی بقاء کی جنگ کے بجائے انڈین،اسرائییلی، امریکی یا پھر افغانوں کی پروکسی اور ان کا ایجنڈہ سمجھ کر اپنے ہی قومی جنگ سے بیگانہ ہو جائیں۔
پاکستان کا بلوچ جہدوجہد کے خلاف یہ دیرینہ مخصوص پروپگینڈے اور بہیمانہ موقف کے خلاف اصل حقیقت پر جتنی بھی زیادہ بلوچ قوم میں علم و آگاہی اور شعور پھیلانے کی کوشش ہوگی اتنا ہی قومی جہدوجہد بلوچ قوم میں غیر متنازعہ صاف شفاف اور قومی سطح پر مقبولیت حاصل کریگا۔ مطلب صرف لفاظیت اور جملے بازی سے ہٹ کر حقائق اور منطق کی بنیاد پر بلوچ قوم میں یہ علم و شعور اجاگر کرنا کہ ایک پختہ شکل میں اپنی قومی بقاء قومی تشخص کو بچانے اور اپنی قومی اور تاریخی ریاست بلوچستان کی بحالی اور اپنے سرزمین سے غیرقوم کو نکالنے کیلئے دنیا اور اپنے ہمسایہ ممالک سے مدد اور تعاون لینے کی ضرورت اور دوسروں کے ایجنڈے اور مفاد پر کام کرنا دوسروں کیلئے جنگ لڑنا اور دوسروں کا پروکسی بننا یہ تمام چیزوں کا مختلف تعریف اور مختلف حقیقت ہیں۔
ان کو پہلے خود سمجھنا پھر بلوچ قوم کو علم و منطق اور حقائق کی بنیاد پر سمجھانا اور شعور اجاگر کرنا ہی جہدوجہد کیلئے بہت اہم ثابت ہوگا۔ قبضہ گیر ظالم و جابر اور حاکموں نے اس وقت اپنے اپنے ذیردست چین روس کیوبا ویتنام لیبیا اور جنوبی افریقہ کے انقلابی تحریکوں کو کیا کیا اور کیسے کیسے القابات اور ناموں سے نوازا تاکہ تحریکوں کا اصل چہرہ پوری دنیا، انسانیت خاص کر جس قوم اور انسانوں کی بقاء اور آذادی کی جنگ ہورہی ہے ان کے سامنے مسخ اور متنازعہ بنایا جاسکے۔ لیکن وہاں کی قیادت اور جہدکاروں نے جس طرح جس انداز میں حاکموں کے پروپگنڈہ اور اپنی تحریک کیلئے دوسروں کے اخلاقی سیاسی معاشی اور فوجی مدد اور تعاون کو جس طرح اپنی قوم اور دنیا کے سامنے برحق اور جائز قرار دینے میں کامیاب ہوئے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور بحثیت بلوچ قوم ہمارا بھی ریاستی پروپگنڈہ مشینری کے خلاف کام کرنے کی سنجیدگی تاریخ کا حصہ بنے گی۔
ویسے پاکستان کے تمام بلوچ دشمنی پر مبنی پروپنگنڈوں کے خلاف، جواب میں ہم جملہ بازیوں اور لفاظیت کی حد تک محدود سرکلوں میں شروع سے ہی گلاپھاڑ کر ضرور چیختے اور چلاتے ہیں مگر کیا آج تک بلوچ قیادت یا جہدکار ایک منصوبے اور پالیسی کے تحت تمام ریاستی پروپگینڈوں پر صحیح معنوں میں سنجیدگی سے غور و خوض کرکے کوئی حکمت عملی ترتیب دے سکی ہے کہ کس طرح اور کیسے ریاستی پروپنگنڈہ مشینری کو کمزور کیا جائے؟ اپنے ٹھوس دلائل، منطق اور حقائق کے بنیاد پر میرے خیال میں شاید کوئی کمزور سوچ موجود ہو مگر اس پہلو پر سوچنے اور غور کرنے کی کسی کے پاس کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہے۔
آج ہم مانیں یا نا مانیں لیکن کل تاریخ ضرور مانے گی اور آنے والی نسلوں کو بتا بھی دیگا کہ دشمن کی بلوچ دشمن کا دھوکے پر مبنی پروپگنڈے تھے اور وہ سب کے سب بلوچ قوم پر پورا پورا اثر انداز ہورہے تھے اور بلوچ قوم، دشمن کے تمام پروپگنڈوں کو حقیقت مان کر دل و جان سے قبول کررہے تھے لیکن اس وقت بلوچ قیادت اور بلوچ جہدکار دن رات اپنے آپسی اختلافات رنجشوں اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی چکر میں اس حد تک جاچکے تھے اور اختلاف، حسد اور بغض میں انہیں خبر تک نہیں چلا کہ قومی جہد اور قوم کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کیا ہوگا، خاص کر دنیاسے اخلاقی سیاسی معاشی فوجی مدد و تعاون کی صرف اپیل عرض یا سرسری طور پر بلوچ قوم کو آگاہ کرنے کے بجائے، منطق کے بنیادوں اور منصوبہ بندی اور تسلسل کے ساتھ تفصیل اور واضح پالیسی کے تحت قوم میں اس حوالے سے آگاہی اور شعور اجاگر کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔