بلوچ تحریک اور پاکستانی میڈیا : تحریر : رحیمو بگٹی

480

دنیا میں جتنی بھی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں ان میں میڈیا کا بہت بڑا کرداررہا ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی جتنی خلاف ورزیاں پاکستان نے کی ہیں شاید شام اور لیبیا مٰیں اتنی نہیں ہوئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستانی میڈیا پردہ ڈالتی رہتی ہے، ۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں پاکستانی فوج اور ایف سی کی جانب سے کئے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔

بلوچستان میں واحد میڈیا جسے رسائی حاصل ہے وہ پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے منظور نظر میڈیا ہاوسز اور صحافیاں ہی ہیں۔ ان کو بھی رسائی دینے کا اولین وجہ حقائق کو توڑ مروڑ کر ریاستی بیانیئے کے کماحقہ حقائق گڑھ کر لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ یہ صحافی بدترین صحافتی بد دیانتی کا شکار ہوتے ہوئے بلوچستان میں رونما ہونے والے بڑے سے بڑے المیے کو اس کمال مہارت سے پردے کے پیچھے چھپا کر غیر اہم چیزوں کے نیچے دبا دیتے ہیں کہ کبھی سچائی لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ خاص کر بیرونِ ممالک تو اسکی بھنک تک لگنے نہیں دی جاتی۔

ایک طرف پاکستان انٹرنیشنل میڈیا کو بلوچستان آنے نہیں دیتا ، تو دوسری طرف بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے بلوچ صحافیوں کی قتل عام دوبڑی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آج تک بلوچ عالمی برادری کی توجہ اور بلوچستان میں عالمی مداخلت کے لیے رائے ہموار نہیں کر سکے۔ بلوچستان میں آدھے سے زیادہ پریس کلب اب غیر متحرک ہوچکے ہیں۔ جو گنے چنے پریس کلب باقی ہیں، ان میں فوج کے وظیفے پر پلنے والے صحافیوں کو بٹھایا گیا، جن کا کام صحافتی فرائض کی ادائیگی کے بجائے مخبری ہے۔ جو ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور صحافی کے آڑ میں خفیہ اداروں کیلئے رپورٹنگ کرتے ہیں۔

پاکستان بڑی مہارت سے بلوچستان پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جس طرح پاکستان نے بنگالیوں کا قتل عام کیا بڑے بوڑھے بچے اور عورتوں کو قتل کیا وہی سب کچھ آج پاکستانی فوج بلوچستاں میں دہرا رہی ہے. تاکہ بلوچوں کی تحریک آزادی کو ختم کر سکے یا بلوچوں کو جھکنے پر مجبور کرسکے۔ بلوچستان صحافتی لحاظ سے پاکستانی قبضہ کی وجہ سے پہلے سے پیچھے ہے، جو بھی اخبارات بلوچستان میں چھپتے ہیں وہ پہلے پاکستانی آئی ایس آئی اور ایم آئی کی دفتر کے لیے جاتے ہیں، تاکہ بلوچستان کی تحریک آزادی اور پاکستانی فوج کی بلوچستان میں بلوچوں پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کی خبروں کو عوام اور عالمی برادری کی نظروں سے چھپایا جا سکے۔کستانی میڈیا اور اس کے صحافی صرف اور صرف آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لوگ چلا رہے ہیں. پاکستانی میڈیا کی صحافتی آزادی کے بلند و بانگ دعوائے صرف پنجاب اور سندھ تک ہے. بلوچستاں میں تو صحافی کم آئی ایس آئی اور فوجی غنڈے زیادہ ہیں. اگر کوئی بلوچ صحافی بلوچ تحریک کے بابت آواز بلند کرے تو اسے یا تو قتل کیا جاتا ہے یا پھر اغوا کیا جاتا ہے.

فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا نیٹورکز آئی ایس آئی اور ان کے اداروں کے کنٹرول میں ہیں۔ کچھ گنے چنے اگر آن لائن بلوچ اخبار چلتے بھی ہیں تو انہیں پاکستان کے اندر بلاک کیا گیا ہے تاکہ لوگوں تک حقائق نہیں پہنچی جاسکے۔ آج اگر بلوچ نوجوان دنیا کو بلوچوں پر ظلم و ستم بلوچ نسل کشی کو پوری دنیا میں لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو وہ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے ہے۔

آج پوری قوم کو دشمن کے ہر طرح کے چالبازیوں کو سمجھنا ہو گا اور دشمن کو ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنا ہوگا. ان میں ایک بہت بڑا محاذ میڈیا کا محاذ بھی ہے جس میں بلوچ اب تک بہت پیچھے ہیں۔ آج اگر بلوچ آزادی پسند ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر دشمن کے خلاف بولیں گے تو ھم دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہونگے کہ آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج بلوچ آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے بلوچ نسل کشی کر رہی ہے. ہماری یکجہتی دشمن کی شکست کی امین ہے اگر ہم یکجا نہ ہونگے اور اسی طرح بکھرے رہیں گے تو دشمن ہمیں ختم کرنے میں دیر نہیں کرے گی۔