بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے عالمی یومِ خواندگی کے موقع پر بلوچستان میں تعلیمی مجموعی صورت حال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی ادارہ یونیسکو کی جانب سے 17نومبر 1965کے بعد سے 8ستمبر بطور انٹر نیشنل لٹریسی ڈے منایا جارہا ہے۔ اقوا م متحدہ کے مطابق اس دن کو منانے کا مقصد انفرادی واجتماعی حوالے سے تعلیم کی اہمیت کو ہائی لائٹ کرنا ہے۔
بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ تیزی سے ترقی کرتی دنیا کا صنعت، سائنس، سیاست ، زبان غرض کہ ہر شعبے میں مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وہ قومیں جو وقت سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایک کروڑ سے زائد کی آبادی رکھنے والا بلوچ قوم، بطور قوم ایک بغیر ریاست کی قوم ہے، ریاست نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سمیت دوسرے شعبوں میں تبدیلی یا بہتری لانے کے فیصلوں کا اختیار بلوچ قوم کے پاس نہیں ہے۔ اس بے اختیاری اور غلامی کی وجہ سے بلوچ قوم کی زبانیں، جغرافیہ اور آبادی شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ گزشتہ69سالوں سے بلوچ اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ مقتدرہ ریاست اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے اس تحریک کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، چونکہ تاریخی اقدار اور جغرافیہ سے آگاہی کسی بھی قو م کو غلامی تسلیم کرنے کے بجائے مذاحمت کی طرف مائل کرتی ہے، اسی لئے بلوچ قوم کو بے خبر رکھنے کے لئے پاکستان بطور خاص تعلیمی شعبے کو ایک جنگی حربہ کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
بی ایس او آزاد کےترجمان نے کہا کہ غلامی کی اس طویل دور میں بلوچوں کی کئی نسلیں تعلیم سے دانستہ طور پر دور رکھی گئی ہیں، جس کی وجہ سے بلوچوں کی روایات اور اقدار پر کاری ضربیں لگائی جا چکی ہیں۔2016میں گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ اور 2015میں یونیسکو نے بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کیے تھے، ان کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ طاقت ور مقتدرہ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت کام کررہی ہے۔ پرائمری سے لیکر تعلیم کے اعلیٰ سرکاری اداروں میں غیر معیاری نظام تعلیم، کمزور نصاب، تعلیمی اداروں میں بجلی، پانی اور ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے اور وقت سے ہم آہنگ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ قوم کو شدید ترین نقصان پہنچائے جاچکے ہیں۔ ان نقصانات کا ازالہ آزاد ریاست کے قیام اور فیصلوں میں بااختیار ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ محکوم قوموں کو قابض قوتیں تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے بھی محروم رکھتی ہیں۔
بی ایس اوآزاد کے ترجمان نے بلوچ عوام خاص طور پر نوجوانوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست کی جانب سے حائل کیے جانے والے تمام مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کریں، کیوں کہ آزادی حاصل کرنے کی صورت میں بلوچ ریاست کو انہی نوجوانوں کو چلانا ہے۔
بی ایس او آزاد نے یونیسکو سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ تعلیم کو بطور کاؤنٹر انسر جنسی ہتھیار استعمال کرنے کی پاکستانی پالیسیوں پر خاموش رہنے کے بجائے اس حوالے سے آواز بلند کرے، عالمی اداروں کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستا ن کے درجنوں مڈل،پرائمری، ہائی اسکول حتیٰ کہ یونیورسٹیز بھی کسی تعلیمی ادارے سے زیادہ فوجی کیمپوں کا منظر پیش کررہے ہیں۔ اندرون بلوچستان متعدد تعلیمی اداروں میں فوج نے تعلیمی سرگرمیاں منسوخ کرکے تعلیمی اداروں کو کیمپوں میں تبدیل کردیا ہے، انہی تعلیمی اداروں سے وہ آپریشن اور دوسری فوجی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچ نوجوانوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کا دفاع کرنے کے لئے آواز اٹھائیں۔