بلوچستان کے تعلیمی ادارے بندوق کے آگے سربسجود

998

صورت خان مری کا ایک مختصر تجزیہ

یہ المیہ نہیں کہ بلوچستان کے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز فوجی کرنلوں ، بریگیڈیروں اور کمانڈروں کو دست بستہ یونیورسٹی بلا کر، طلباء اور اساتذہ کو ان کے زریں خیالات سے استفادہ کرواتے ہیں اور طلباء نظر نیک کی تمنا میں برخورداری کی نمائش کے ساتھ نوٹس لیتے متفخر ہیں۔

جناح روڑ پر موجود سائنس کالج کا پرنسپل پروفیسر کرار صاحب تھے ۔
ایک دن کسی طالب علم کی شرارت پر گیٹ کے سامنے چوراہے پر پولیس کا سپاہی کالج احاطہ میں داخل ہوا۔
جب اطلاع پروفیسر کرار صاحب کو ملی ۔
غصے سے لال پیلا ، ننگے پاؤں دوڑ پڑا ، پولیس سپاہی بھاگ کھڑا ہوا۔
انہوں نے پولیس اعلیٰ آفیسر کو فون کیا۔
پولیس نے یہ جرات کیسے کی ، بلا اجازت مقدس تعلیمی درس گاہ میں کیسے داخل ہوا؟
اسی لمحہ پولیس اعلیٰ آفیسر اجازت طلب معافی کا خواستگار کالج آیا ۔
’’ حالت بہ اینجا کہ آج کل بلوچ روایت کے پیروکار کہتے نظر آتے ہیں ،
وہ یہ کہ، بلوچ روایت میں چیلنج اور خطرناک حالت میں بلوچ کہاوت ہے ۔
’’ ایمان سلامت رہے‘‘
البتہ آج کل کہا جاتا ہے ،
’’ اور پردہ رکھے‘‘