بلوچ رہنما اور نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے مہران مری نے کہا ہے کہ پاکستان بلوچستان میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اقوام متحدہ کے 36 ویں سالانہ سیشن کے دوران 15 ستمبر کو منعقدہ ایک سائیڈ ایونٹ کے دوران کیا۔
سائیڈایونٹ جس کا انعقاد مہران مری نے کیا تھا میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمدغ بگٹی، ورلڈ بلوچ آرگنائزشن کےرہنما بہاول مینگل اور یورپین پارلیمنٹ کے ممبر جیک ویلزوک سمیت دیگر نے شرکت کی۔
مہران مری نے اپنے تقریر میں کہا کہ پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کی جانب سے بلوچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کسی صورت نسل کشی سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ مردم شماری کے نتائج خود پاکستان کے اپنے اداروں کی جانب سے ایک اقرارار نامے کی حثیت رکھتے ہیں جن میں کہا گیا ہیکہ بلوچی اور براہوی زبان بولنے والوں کی تعداد میں بلوچستان میں کمی آئی ہے۔ یہ واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ یہ کمی یا تو بلوچستان میں جاری نسل کشی یا پھر بلوچوں کی زبردستی ملک بدری سے واقع ہوئی ہے۔
مہران مری نے کہا کہ ایک طرف بھر پور طریقے سے بلوچستان کے مختلف علاقے جن میں بولان، ڈیرہ بگٹی، کوہلو،مشکے، مکران اور دیگر شامل ہیں میں روزانہ کی بنیاد پر شدت سے فوجی آپریشنز ہو رہے ہیں تو دوسری جانب نام نہاد سی پیک کی خاطر بلوچوں کے گھر اور دیہات جلائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک واضح نشل کشی ہے۔ایسےحالات میں بھی اگر یورپین یونین یا اقوام متحدہ پاکستان کیخلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب بلوچ قوم صفحہ ہستی سے مٹ جائی گی۔
یورپین پارلیمنٹ کے پولش ممبر جیک ویلزوک نے اپنے تقریر میں کہا کہ جو پاکستان بلوچستان میں کر رہی ہے وہ ہمیشہ کیلئے دنیا سے چھپایا نہیں جا سکتا۔ دنیا بلوچ سیاسی کارکنوں کی بیرونی سفارتکاری جیسے کہ اقوام متحدہ کےسیشنز میں شرکت اور سوشل میڈیا کے زریعے بلوچستان کے حالات سے اپڈیٹ ہو رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے بلوچستان میں انسانی حقوق کے پائمالی میں شدید تیزی لائی گئی ہے۔ پاکستان اپنے آپ کو اقوام متحدہ کو ممبر کہتی ہے لیکن ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپکو اقوام متحدہ کے چارٹر سے مبرا سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا انقریب اس مسئلے کو یورپین پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا جائے گا۔
بلوچ ریپبلکن کے سربراہ براہمدغ بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز آج سے نہیں بلکہ پچھلے کئی دیہائیوں سے جاری ہیں جن میں روزانہ کے بنیاد پر بلوچوں کو قتل اور اغوا کیا جاتا ہے لیکن اصل المیہ یہ ہے کہ عالمی میڈیا اور ادارے اس معاملے پر آنکھ بند کئے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اس فورم کے توسط سے عالمی میڈیا اور یو این کے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خود بلوچستان جا کرزمینی حالات اپنے آنکھوں سے دیکھے۔ پاکستان کہتی آرہی ہے کہ بلوچ آزادی پسند مٹھی بھر لوگ ہیں اگر یہ حقیقت ہے تو پھر کیوں عالمی اداروں پر بلوچستان جانے کی پابندی لگائی گئی ہے۔
براہمدغ بگٹی نے کہا کہ اگر بلوچستان میں اقوام متحدہ کے اداروں کے زیر نگرانی ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ بلوچ آزادی پسند مٹھی بھر ہیں یا نہیں۔ آج پاکستان ریاست بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرا رہی ہے اور روزانہ کے بنیاد پر خواتین اور بچوں سمیت لوگ اغوا اور قتل ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کےتمام مسائل کا واحد حل بلوچستان کی آزادی میں پنہاں ہے۔
آخر میں مہران مری نے تمام مندوبین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں ایک بار پھر یورپین ممالک سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے پارلیمنٹس میں بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پائمالیوں کیخلاف بل پیش کریں۔