اجتماعی طاقت کا حصول ناگزیر ہوچکا ہے تحریر : آرچن بلوچ

340

لکم دینکم ولی الدین یعنی سب کا اپنا اپنا دین کے تصور کو لیکر جب ہم اپنی نجات کے راہوں کے بارے سوچتے ہیں تو مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ اسی تصور یا نظریہ یعنی سب کا اپنا اپنا دین ہے، نے قوم کی اجتماعی قوت کو منتشر کیا ہے، وہ یوں کہ پارٹیوں یا تنظیموں کی وجود کا تصور یہ بتاتا ہے کہ قوم کی اجتماعی قوت ان ہی پارٹیوں یا تنظیموں کی شکل میں وجود تو رکھتا ہے، لیکن الگ الگ پارٹیوں اور تنظیموں کی شکل میں منقسم و متشر بھی ہیں، ہم ایک آزاد قوم نہیں ہیں بلکہ ایک مقبوضہ قوم ہیں، روایتوں کی بنیاد پر تنظیم کاری اور انکی تشکیل مقبوضہ قوم کی جہد آجوئی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔
بقول سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے‘‘ کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے’’، بلوچ قوم پاکستانی اور ایرانی جارحیت کا شکار ہیں، طاقت کو صرف طاقت ہی روک سکتا ہے، بلوچ قوم کا ایک قومی طاقت ہے لیکن وہ منقسم و مفلوج ہے۔
جبکہ دوسری طرف آزاد ریاست کی شکل میں کسی بھی قوم کی اجتماعی قوت اس کی قومی اداروں یعنی قومی پارلیمنٹ، قومی معیشت اور قومی فوج کی شکل میں وجود رکھتا ہے۔ اگر کوئی آزاد قوم جنگ میں جانے سے پہلے اپنی قومی معیشت اور عسکری قوت کو دیکھتا ہے، تو ہمارے پاس قوم کی اجتماعی قوت کے حامل بنیادی اہم ادارے یعنی قومی معیشت اور قومی فوج نہیں ہے، ہماری قومی قوت کمزور ڈھانچوں والے تنظیموں کی شکل میں منقسم ہیں، اور بد قسمتی سے مجھ جیسے عقل کے اندھے ان ہی منقسم و منتشر تنظیموں کو قومی ادارہ بھی گردانتے ہیں،موجودہ پارٹیاں اور تنظیمیں اگر مضبوط شکلوں میں ہوتیں تو کچھ ڈھارس بندھا جاتا، لیکن بقول پنجابیوں کے آوے کا آواہ ہی بگڑ چکا ہے۔
موجودہ دور میں قومی ترجیحات اور قومی پالیسیوں کا از سر نو تعین کا سوال بھی ابھر چکا ہے، انکے بارے انفرادی طور پر فیصلہ لینا ممکن نہیں جب تک اس میں قومی اپروچ شامل نہ ہو۔
تحریک آزادی کے متحرک ترین اور سینئرترین جہدکاروں کو اپنی اپنی چینلوں کے زریعے اس بات کو اپنے لیڈروں کے ہاں گوش گزار کرانا چاہے کہ اجتماعی طاقت کا حصول انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے، موجودہ تمام انفرادی پارٹیاں اور تنظیمیں قومی تحریک کے تقاضوں، لوازمات اور ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں،قومی تحریک کی لوازمات اور تقاضوں کی پورا کرنے کیلئے چار سادہ مگر اہم و بنیادی فیصلے کرنے ہونگے۔
سب سے پہلے تمام آزادی پسند اسٹیک ہولڈرز ایک امبریلہ آرگنائزیشن کے تحت جمع ہوں یہ امبریلہ آرگنائزیشن تمام اسٹیک ہولڈروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک نمائندہ قومی کونسل تشکیل دے جس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی ہو اور یہ پارلیمنٹ ایک جلا وطن حکومت کا چناؤ کرے، اس کے ساتھ ہی قومی فوج کا تشکیل ایک مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تحت انجام پائے،انہی اداروں کی تشکیل کے بعد بلوچ کیلئے دنیا سے کمک اور سپورٹ کا حصول بہت آسان ہوگا۔ اور قوم کو کم از کم نفسیاتی بھی ریلیف بھی ملے گا ، اور یہ تمام یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قومی تحریک میں حالیہ انتشار در انتشار کی لہر کو روکنے کا واحد طریقہ جماعتی نہیں بلکہ قومی اتحاد میں ہے