بلوچستان اسمبلی میں بیٹھے کٹھ پتلی فوج کے سول نمائندے ہیں :بی ایس او آزاد

223

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادنے ایک مہینے سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال کولواہ کو محاصرے میں رکھنے کی فوجی کاروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بائیس اگست کے بعد سے فورسز نے آواران اور کیچ کے درمیانی علاقوں میں دو درجن کے قریب مڈل، ہائی اور پرائمری اسکولوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ علاقے کو محاصرے میں لیکر داخلی و خارجی راستوں اور مواصلات کے نظام پر مکمل پابندی لگائی جا چکی ہے۔ تعلیمی اداروں کو جنگی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ان علاقوں کے سینکڑوں نوجوان اسکولوں سے باہر ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر ملک ہونے کے باوجود اس کی فورسزعالمی اصولوں کو پاؤں تلے روند رہی ہے لیکن اس کے خلاف دنیا کے کسی بھی حصے سے آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے۔ کولواہ آپریشن کے دوران دو مہینوں میں کم از کم 7نوجوانوں کو فوج نے قتل کردیا ہے جبکہ درجنوں لاپتہ ہیں۔ کولواہ سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں انٹر نیٹ سسٹم کی فراہمی پچھلے آٹھ مہینوں سے معطل ہے لیکن بائیس اگست کے بعد سے کولواہ میں موبائل سسٹم کو بھی فورسز نے بند کررکھا ہے جس کی وجہ سے صحیح اطلاعات تک رسائی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کی صورت حال شدید سنگین ہے لیکن انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ اس جانب مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ نہتے بلوچوں پر ریاستی طاقت کا استعمال کھلی دہشت گردی اور عالمی اصولوں کے یکسر منافی ہے۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ2013کے بعد سے مکران اور جھالاوان کے سینکڑوں سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں پر فورسز نے قبضہ جما رکھا ہے، بوائز انٹر کالج ہوشاب اور بوائز انٹر کالج مشکے سمیت ہائی اسکول ڈندار،مڈل اسکول ہور، مڈل اسکول گُشانگ، پرائمری اسکول سحر، پرائمری اسکول جت، شاپکول کے پرائمری اسکول، کنیچی پرائمری اسکول کے علاوہ مشکے، گچک، تمپ، دشت کے متعدد اسکولوں کی عمارتوں پر فوج کا قبضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی صوبائی اسمبلی کے نمائندے فوج کے سول نمائندے ہیں جو بلوچ عوام پر جبر اور طلباء کی مستقبل کے ساتھ کی جانے والی کھلواڑ میں برابر کے شریک ہیں۔