اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل بلوچ ساحلی پٹی عرف عام میں گرم پانی کے نام سے معروف آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے عالمی و علاقائی قوتوں کے توجہ و مفادات کا مرکز رہا ہے۔ یہ ہر قوت کے ایجنڈوں میں سے ایک رہا ہے۔ اپنے جغرافیائی، معاشی ، سیاسی، اور عسکری اہمیت کی وجہ سے بلوچ ساحل پر کنٹرول حاصل کرنے کی غرض سے مختلف ادوار میں مختلف قوتیں رسہ کشی ، صف بندی اور سرد و گرم جنگوں میں بر سرِ پیکار رہے ہیں جو ہنوز جاری ہے۔
بلوچ سرزمین کی دن بدن بڑھتی ہوئی جیوپولیٹکل اہمیت اور گوادر پورٹ و سی پیک جیسے تجارتی و عسکری اکنامک کوریڈور کی وجہ سے یہ بلوچ وسائل بلوچ کو آباد کرنے کے بجائے بلوچ قوم کی نسل کشی اور بربادی کا باعث بن چکے ہیں۔ پاکستان یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ چین و پاکستان کے ان معاہدوں کے سامنے رکاوٹ بننے والے ہر بلوچ کو ماردیا جائے گا۔ پاکستان اپنے اتحادی قوتوں کے ساتھ خاص کر چین کے ساتھ ملکر باقاعدہ اٹل فیصلہ کرچکا ہے کہ اب ہر حال میں اپنی معاشی فوجی اور سیاسی مفادات کو پایہ تکمیل تک پہچانا ہے دوسری طرف بڑی سے بڑی عالمی قوتیں، پاکستان اور چین کے اس معاشی سیاسی اور فوجی گٹھ جوڑ سے بننے والی منصوبوں سے خفا ہیں۔
مختصراً پاکستان خاص کر چین کے خطے میں مزید فوجی سیاسی و معاشی استحکام کو ہر گز کوئی بھی عالمی قوت برداشت کرنے کو تیار نہیں اور پاکستان و چین مخالف قوتیں بھی زور شور سے پاکستان اور چین کے خلاف صف بندی کررہے ہیں اور ان کا بھی اپنا ایجنڈہ ہے اور مرکز اور محور بلوچستان ہے۔
سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ خود بلوچ قوم کہاں کھڑا ہے؟ ویسے تو ایسے مواقعوں پر ہمیشہ محکوم اقوام کو اپنی قومی آذادی کیلے سنہرے مواقع نصیب ہوجاتے ہیں اور عالمی رسہ کشی کو اپنے حق میں موڑ کر اپنی قومی آزادی و قومی بقاء اور قومی تشخص کو بحال کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن ایسے مواقعوں سے فائدہ اٹھانا محض ان قوموں کا خاصہ بنتا ہے جن کے پاس طویل المدتی ویژن ، سیاسی بلوغت اور مضبوط ادارے ہوں اور وہ قومی تشکیل کے مرحلے کو سمجھداری سے طے کررہے ہوں۔
قومی قوت کی تشکیل میں ہمیشہ قوم کی قربانیاں ،خون و پسینہ ،محنت ،صلاحیت ،تکلیف اور مشکلات شامل ہوتے ہیں۔کیا بلوچ قوم اس مرحلے سے برسوں سے گزر نہیں رہا ہے؟اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر وہ بلوچ قومی قوت کہاں ہے؟ جس کو اب تک حاصل ہوجانا چاہیئے تھا۔ بیش بہا بلوچوں کی قربانیوں کے باوجود بلوچ قومی قوت کل بھی تقسیم در تقسیم اور منتشر تھا آج بھی وہی صورتحال ہے۔ وجوہات کیا ہیں؟ کم از کم آج کسی بھی ذی شعور بلوچ سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔کوئی بھی لاعلم نہیں ہے۔
تو پھر یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بھی عالمی ایجنڈے ہیں اور جو بھی سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ ہی جائیں گے۔ اگر بلوچ اپنے قوت کی تشکیل کرپایا تو پھر ہم تاریخ کے اس دھارا کو اپنی طرف موڑ پائیں گے لیکن اگر کامیاب نا ہوئے تو پھر ان عالمی ایجنڈوں کی تکمیل کے مینار ہمارے قبروں کے اوپر اور بلوچوں کے بغیر کھڑے ہونگے۔پھر بلوچ قومی تحریک اتنی قربانیوں کے باوجود اپنے منتشر حالی اور تقسیم در تقسیم کی وجہ سے کسی عالمی پلیئر کے ٹیم میں جگہ بنانے کی سکت نہیں رکھے گی۔ عالمی چیمپین اپنے عالمی و معاشی قوت کو کومذید تقویت دینے کے ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچا کر اور پاکستان اور چین کو سیاسی معاشی اور فوجی حوالے سے عدم استحکام کا شکار بنا کر اور تمام پاکستان و چین گٹھ جوڑ منصوبوں خاص کر سی پیک منصوبے کو ناکام اور سبوتاژ تو کردینگے جس میں بلوچ قومی بقاءاور مفاد بھی مضمر ہے لیکن ناکام اور سبوتاژ کس کے ہاتھوں ؟ شاید بلوچ کی ناکامی کی صورت مذہبی شدت پسند قوتوں کے ذریعے (حال ہی میں مذہبی شدت پسندوں کا کوئٹہ سے چینی جوڑے کے اغوا اور قتل زیر غور ہیں)۔اسی طرح اگر بلوچستان کی آزادی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے تو پھر آزاد بلوچستان کس کے ہاتھ میں ہوگا مذہیبی قوتوں یا کٹھ پتلی نواب و سردار یعنی اختر مینگل سے لیکر چنگیز مری نواب مگسی نواب ذہری جام جمالی گیلانی بزنجو رہیسانی وغیرہ جیسوں کے ہاتھ میں؟
اگر بلوچ آزاد بھی ہوا اور آزادی کا پھل پھر اسی مفاد پرست طبقے کی گود میں جاگرا تو پھر بلوچ قوم خصوصاً بلوچ شہداء کی قربانیوں اور لہو کے ساتھ ساتھ بلوچوں کی برسوں سے کرب ناک اور تکلیف دہ ذندگیوں کے پھل کہاں اور کس کے پاس؟
کیا قومی قیادت اور قومی کارکن اس حوالے سے سوچ و بچار کرنے کو تیار اور سنجیدہ ہیں؟
عالمی و علاقائی صورتحال کا مختصراۤ اور سادہ سے جائزے کے بعد اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بغیر قومی انقلابی اور نظریاتی متحد قوت کے بلوچ قومی تحریک حالیہ رسہ کشی میں اپنا اہم اور اصل مقصد حاصل نہیں کرسکتا ہے جس کیلے بے شمار لوگ بے شمار قربانی دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں۔ایک قومی قوت کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔