بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری فوجی کاروائیوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کیا گیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان کو آج ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے کہ اس صورت حال میں کسی بھی طبقہ فکر سے زیادہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا نمائندوں کی زمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے سب چھوٹے صوبے سے سب سے زیادہ لوگ جبراََ غائب کیے جا چکے ہیں۔مسخ شدہ لاشیں بھی سب سے زیادہ یہیں سے مل رہی ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، لوٹ مار وقتل غارتگری کے واقعات تسلسل کے ساتھ یہاں رونما ہورہے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ قومی میڈیا ان تمام خبروں سے مکمل طور پر خود کو لاعلم رکھ رہی ہے اور صوبائی حکومت کے نمائندے ان معاملات پر چھپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔
میڈیا کی خاموشی کے نقصان اس وجہ سے زیادہ ہیں کیوں کہ میڈیا صرف خود کو لاتعلق نہیں رکھ رہی، بلکہ پورے معاشرے کو اس تمام صورت حال سے بے خبر کررہی ہے۔ بلوچستان ایک دہائی سے شورش، آپریشنز اور پرتشدد واقعات کی زد پر ہے، ضلع آواران کے متعدد علاقے گزشتہ پانچ دنوں سے فورسز کے محاصرے میں ہیں۔ ان علاقوں میں بجلی، پانی کا نظام پہلے سے موجود نہیں ہے۔ مواصلات کے جو محدود ذرائع موجود تھے، فورسز نے انہیں بند کررکھا ہے، علاقے کے داخلی و خارجی راستوں پر پہرے بٹھائے گئے ہیں، ان علاقوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش مالداری اور کھیتی باڑی ہے، اس صورت حال میں ان کا ذریعہ معاش شدید متاثر ہے۔
تین دن پہلے اس آپریشن میں ہلاک ہونے والے دو افراد کی لاشیں فورسز نے آواران تھانے پہنچا دیں، ہلاک ہونے والے ان افراد کا تعلق ضلع آواران کی تحصیل مشکے سے تھا، گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق کولواہ میں مزید ایک شخص کو فورسز نے ہلاک کردیا ہے، اس کی شناخت زباد نامی نوجوان سے ہوگئی جو کہ پیشے کے لحاظ سے ایک چرواہا تھا۔ افسوسناک طور پرخواتین و بچوں سے زبردستی کرنے کے واقعات کی بھی اطلاعات ہیں، اس طرح کے واقعات کے اثرات بلوچ سماج پر بہت منفی طریقے سے پڑتے ہیں۔ آپریشن اور گرفتاریاں صرف کولواہ میں نہیں ہورہی ہیں، مکران کے دیگر کئی علاقوں سمیت جھالاوان و سراوان میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ دو روز قبل مکران کے سرحدی علاقے مند میں فورسز نے ایک کاروائی کے دوران دو درجن سے زائد لوگوں کو گرفتار کرلیا، جن میں سے بیشتر کو چند گھنٹوں کی حراست کے بعد رہا کردیا گیا۔ تاہم چند اب تک لاپتہ ہیں۔ دشت اور تمپ سے بھی لوگوں کو جبراََ غائب کرنے کی اطلاعات ہیں۔گزشتہ روز حب چوکی سے بھی دو تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوگئیں ان کی شناخت اب تک نہیں کی جا سکی ہے۔
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤن نے ان کاروائیوں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں قرار دیتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوجی طاقت کے استعمال کی پالیسی ترک کردیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے جاری اس طرح کی کاروائیاں کوئی نتیجہ فراہم نہیں کرسکی ہیں سوائے اس کے کہ ہزاروں نہتے لوگوں، سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے، ہزاروں گھر مسمار کیے جا چکے ہیں اور اتنے ہی خاندان اپنے علاقوں سے جبراََ بیدخل کیے جا چکے ہیں اور ہزاروں نوجوان سالوں سے نامعلوم قید خانوں میں بند ہیں۔ عام لوگوں میں خوف اور ڈر کا ایک ماحول پیدا ہوچکا ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، وہ اس بات کا متقاضی ہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے، دیر ہونے کی صورت میں صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے، جس کے نتیجے میں انسانی المیہ جنم لے سکتی ہے۔