مگر تم چپ رہے :تحریر: ہمایوں احتشام

552

تمہارے ملک پہ سامراج قابض ہوا، تمہاری زمینیں اپنے گماشتوں کو دے دیں، اور تمہیں راندہ درگاہ کردیا_ مگر تم چپ رہے۔

تمہاری آزادی کو سلب کیا، تمہیں جانوروں سے ارزل زندگی کی راہ پہ چھوڑ دیا___ مگر تم چپ رہے۔

تمہیں نام نہاد آزادی دی اور تم پہ اپنے پالتو زر خرید کتوں کو حکمران بنا دیا__ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے ملک پہ فوجی قبضہ ہوا، جمہوریت کی بساط لپیٹ دی___ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے ساتھ جمہوریت کے نام پہ کھلواڑ کیا، اور تم پہ بوٹوں والوں کو مسلط کردیا___ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے وطن کے محافظوں نے تمہارے اپنے ہی بنگالیوں کو مارا، ڈھائی لاکھ کالے لوگ___ مگر تم چپ رہے۔

تمہاری اپنی فوج نے ہزاروں بنگالی عورتوں کی عصمت دریاں کیں___ مگر تم چپ رہے۔

پھر تمہاری فوجی اور سول جنتا نے مل کر بلوچوں کا قتل عام اور نسل کشی کی__ مگر تم چپ رہے۔

پھر تمہارے منتخب اور عوامی لیڈر اور وزیراعظم کو دار کی زینت بنا دیا گیا__ مگر تم چپ رہے۔

پھر تم پہ زبردستی کا ضیائی اسلام جس کا حقیقی اسلام سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا، تھونپ دیا گیا___ مگر تم چپ رہے۔

پھر انتظامیہ نے اسٹریجیک اثاثے تشکیل دئیے، جنہوں نے مذہبی جنونیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے، ہزاروں کو مارا__ مگر تم چپ رہے۔

پھر تمہارے ملک کے اور تمہارے اپنے اثاثوں اور اداروں کو اونے پونے داموں بیچا گیا، برقعہ کی آڑ میں تمہاری ثقافت کو کیش کرایا اور ووٹ بٹورے__ مگر تم چپ رہے۔

پھر تمہارے ملک میں فوجی جنتا نے ہزاروں مہاجروں کو مارا اور غائب کیا__ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے ملک پہ پھر فوج نے قبضہ کیا، تمہارے منتخب وزیراعظم کو بے عزت کرکے ملک سے نکالا___ مگر تم چپ رہے۔

پھر تمہارے ملک پہ مذہبی انتہا پسندی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا اور تمہارے اپنے ہی بچے مرنے لگے__ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے اپنے ہی وطن کے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں، بلوچستان، کراچی اور وادی مہران___ مگر تم چپ رہے۔

سانحہ بلدیہ ٹاون ہوا، سانحہ گڈانی ہوا___ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے ہزاروں بچے اور مزدور کسان اور عام سپاہی اسی انتہا پسندی کی نظر ہوگئے___ مگر تم چپ رہے۔

تمہارے اپنے ہی وطن میں نظریات کا قتل ہوا، باچا خان کے نظریے کو مار دیا، غنی خان کو مار دیا، خان ولی خان کو اس کی اپنی چھت کے نیچے مار دیا۔ وہ مشعال نہیں مرا تھا، وہ تو باچا خان مرا تھا___ مگر تم چپ رہے۔

تم ڈری سہمی اور مایوس قوم ہو، جس کو ادھورے انقلاب نے مایوسی کی اتھا گہرائیوں میں ڈوبا دیا، اور پھر بدترین ضیائی آمریت،

بھٹو کی بیٹی کی نظریاتی غداری اور پھر دوبارہ مشرف کی فوجی لبرل آمریت۔ مگر باچا خان کے نظریے کی موت نے باشعور لوگوں کی آنکھیں کھول دیں ہے۔ اب شاید مارکس، اینگلز، لینن، چے گیویرا، اکبر بگٹی، اور باچا خان کے متوالے کی روح کو سکون مل جائے۔

”سب سے پہلے وہ کمیونسٹوں کو مار گرانے آئے، لیکن میں کچھ نہ بولا۔
کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کو قتل کرنے آئے، میں نے کوئی لفظ ادا نہ کیا،
کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ یہودیوں کو مارنے چلے آئے، اب بھی میں کچھ نہ بولا،
کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔
آج وہ میری زندگی کا دیا بجھانے آئے ہیں، لیکن کوئی بھی نہیں بچا جو میرے حق میں آواز بلند کرے۔“
مارٹن نیوملر (نازیوں کے عہد پہ لکھا اک قطعہ)