بی این ایم کا چین کے ون بیلٹ ون روڈ اور اسکے اثرات حوالے کانفرنس

275

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ گیارہ اگست کو جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ’’چین ون بیلٹ ون روڈ : بلوچستان اور خطے میں اسکے اثرات‘‘ کے موضوع سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

پروگرام کے موڈیریٹر امریکی انسانی حقوق کے سرگرم خاتون کارکن لوری ڈیمر تھے۔بی این ایم کے خارجہ سیکرٹری حمل حیدر نے افتتاحی خطاب اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے مختلف مقررین نے اپنی رائے اور خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس تین حصوں اور پینل پر مشتمل تھا۔ پہلے پینل میں جرمن محقق اور سیکورٹی ابزرور ڈاکٹر سیگ فرائیڈ وولف، افغانستان سے امریکن سیکورٹی ماہر احسان منور، بھارتی مصنف اور سیکورٹی تجزیہ کار الوک بنسل، جاپانی ماہر اور تجزیہ کار شناچی فجکی، دوسرے پینل میں یو این پی او کے صدر ناصر بلیدی، ایم کیو ایم کے کنوینز ندیم نصرت، مصنف اور محقق ڈاکٹر نصیر دشتی، ورلڈ یوغور کانگریس کے جنرل سیکریٹری ڈلکن ایسا اور ورلڈ سندھی کانگریس کے صدرلکو لوہانہ ،بی این ایم نارتھ امریکہ کے ڈاکٹر ظفربلوچ،اور تیسرے پینل میں ایچ آر سی بی کے چیئرمین تاج بلوچ، بی آر پی جرمنی کے صدر جواد بلوچ اور بی ایس او آزاد کے فارن کمیٹی کے آرگنائزر نیاز بلوچ تھے۔

مقررین نے دنیا میں بدلتی حالات ، چینی معیشت،سی پیک، چینیوں کا مختلف ملکوں میں آبادکاری، عسکری ارادوں سمیت کئی پہلوؤں پر مفصل بحث کی ۔ حمل حیدر نے کہا کہ سی پیک کے نام پر نو آبادکاری کرکے بلوچستان کی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کی جارہی ہے۔ اسی طرح یہ منصوبہ ایک عسکری منصوبہ ہے اور یہ خطے اور دنیامیں طاقت کا توازن تبدیل کرکے خطے میں نئی جنگوں کا باعث بن رہاہے۔

ڈاکٹر سیگ فرائیڈ وولف نے کہا کہ OBOR منصوبہ ایشیا اور یورپ کو ملانے کا منصوبہ ہے۔اور سی پیک اسلام آباد اور چین کے درمیان ایک پوشیدہ اور متنازعہ منصوبہ ہے۔ اس میں مقامی لوگوں کو بے خبر رکھ کر ان کی مرضی، منشا اور مفادات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ چین کی فوجی سہولیات کا ذریعہ بھی ہے۔ OBOR کو یورپ سے منسلک کرکے چینی درآمدات کو جس آسانی سے یہاں پہنچایا جائے گا، اس سے جرمنی کو نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہم یہاں برلن میں بیٹھے ہیں یہاں چینی اشیاء کی بھر مار ہے ہورہی ہے اور جرمنی کے پروڈکٹ جو ماضی میں مارکیٹ پر حاوی تھے، نہیں ہو سکیں گے۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ آج کا دن ’’گیارہ اگست‘‘ ایک غیر معمولی دن ہے۔اسی دن 1947 میں ہم نے آزادی حاصل کی اور 227 دن تک آزاد رہے۔ مگر پاکستانی فوج نے حملہ کرکے بلوچستان پر قبضہ کر کرکے ہمیں غلام اور کالونی بنایا۔ جناح نے بلوچستان کی آزادی کو قبول کرکے بھی فوجی جارحیت کی۔ آج بلوچستان میں چین کی مدد سے انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں۔ سی پیک ایک عسکری توسیع پسندی ہے۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان ایک ملین ذگریوں کا گھر ہے جو صوفی ازم اور سیکولر روایات اور رواداری پر یقین رکھتے ہیں مگر آج یہ پاکستان کی جہادیوں کا اولین نشانہ ہیں۔ سی پیک منصوبے کے معاہدے کے بعد پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں جہادیوں کی پرورش میں تیزی لائی گئی تاکہ قوم پرستی کی سیاست کو دبایاجاسکے۔ اس طرح یہ موت اور درندگی کا منصوبہ بن چکا ہے۔

احسان منور نے کہا کہ افغانستان ایشا کا دل ہے اور کئی ٹریلین ڈالر وسائل کا مالک ہے مگر ہمسایوں کی بیرونی مداخلت کی وجہ سے نئی جمہوری افغانستان خراب صورتحال کا شکار ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان چار دہائیوں سے جنگ میں ہے اور ہمسایہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دے رہی ہے۔

جب روس نے حملہ کیا تو افغان نے فتح حاصل کی مگر آج بھی امن حاصل کرنے کی جد وجہد میں ہے لیکن ہمسایہ ملک اسے مشکل بنا رہا ہے۔ آج ہمارا ہمسایہ ملک داعش کو بلوچستان اور افغانستان کے خلاف مضبوط بنا رہا ہے۔ گوادر کو ملٹری بیس بناکر افغانستان کو سی پورٹ تک رسائی نہیں دی جارہی۔ پاکستانی اہلکاروں کو میں نے بتایا کہ کوئٹہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ موجود ہیں اور خود کش بمبار پیدا کررہے ہیں، مگر وہ قبول کرنے سے منکرہیں۔

الوک بنسل نے کہا کہ اس منصوبے سے اقتصادی طور پر سب سے زیادہ یورپ متاثر ہوگا۔ میں کہوں کہ انڈیا واحد ملک ہے جو اس منصوبے سے دور ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان یا چین کسی کا حصہ نہیں ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے آئین میں یہ ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر بھی۔ جبکہ انڈیا کے آئین میں یہ واضح ہے کہ یہ ہمارا حصہ ہیں۔ اس طرح انڈیا سے مشاورت کئے بغیر چین اور پاکستان سی پیک و دوسرے منصوبوں کو یہاں سے کیسے گزار رہے اور تعمیر کر رہے ہیں۔ الوک بنسل نے کہا کہ ’’عطااللہ سے پوچھا گیا تھا کہ گوادر کو کراچی بنایا جائیگا توانہوں نے جواب دیا کہ گوادر کو کراچی بنانے والے بلوچوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں‘‘۔ گوادر پورٹ پر کام کرنے والا کوئی بلوچ نہیں ہے۔ چین میں لوگوں کو روزے رکھنے کی جازت نہیں اور داڑھی کو زبردستی شیو کیا جاتا ہے۔ چین نے سری لنکا کیلئے ایک پورٹ بنایا لیکن اچھی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے سری لنکا چین کو پیسے واپس نہیں کرسکا اور بدلے میں مجبوراََ پورٹ ہی کو چین کے حوالے کرنا پڑا۔ یہی گوادر میں ہورہاہے اور پاکستان کو کوئی فکر نہیں ہوگا گر چین گوادر پورٹ کوقبضے میں لے لے۔
شناچی فجکی نے کہا کہ جاپان میں بلوچستان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس منصوبے کے بارے میں معلومات کرتے ہوئے بلوچستان کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے۔

ناصر بلیدی نے کہا کہ ایران اور پاکستان اسلام کے نام کو سیاسی طور پر استعمال کررہے ہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کیا جارہاہے۔انڈیا چاہ بہار پورٹ پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اسے ناکام بنانے کیلئے پاکستان اسلامی کارڈ استعمال کرکے وہاں مذہبی تفرقہ پھیلا رہاہے، کیونکہ پاکستان کو معلوم ہے کہ یہاں یہی عنصر کارگر ہے۔ داعش کا لشکر خراسان پاکستان کی پشت پناہی میں مشرقی اور مغربی بلوچستان میں سرگرم ہے۔
لکو لوہانہ نے کہاکہ بلوچ اور سندھی قوم ایک نازک صورتحال سے دوچار ہیں۔انسان اکیسویں صدی میں امید کر رہاتھا کہ ہر کوئی اپنی سرزمین پر آزاد رہ کر اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کا فیصلہ کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پاکستان کے ستر فیصد وسائل پیدا کرتا ہے اور واحد سی پورٹ کا مالک ہے مگر یہاں کے ستر فیصد عوام غربت کی لکیر کی حدسے نیچے رہ رہے ہیں۔ پاکستان کو سندھی قوم نہیں بلکہ وسائل اور زمین عزیز ہیں۔ ہمیں جبر، مظالم اور غلامی کا سامنا ہے۔

ندیم نصرت نے کہا کہ کراچی پورٹ کو وسعت دی گئی ہے ۔ بلوچستان میں مذہبی پروکسی پیدا کئے گئے ہیں۔ کراچی میں یہی کیا جا رہا ہے۔ ہم پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں سے سب سے زیادہ سیکولر ہیں۔ ہم پچھلے چار سالوں سے رینجرز کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہیں مگر یہاں جہادی لوگوں کو ریلیاں نکالنے ، چندہ اکھٹا کرنے اور پمفلٹ وغیرہ تقسیم کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ پاکستان آرمی اور انٹیلیجنس ان کی کھلی مدد کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے دفاتر کو مکمل طور پر بند کیا گیا ہے۔ ہماری فیملی ممبرز کو اغوا کرکے دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ ہم اپنی سیاست اور انسانی حقوق کی باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ ہمارے کئی کارکناں کو اغوا کے بعد قتل کرکے لاشیں پھینکی گئی ہیں۔

ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہا کہ سی پیک بلوچ اور سندھیوں کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔سی پیک ہوگا تو بلوچ نہیں ہوگا۔ نوے کی دہائی میں گوادر پورٹ کو بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 9/11 کے بعد پاکستان اور مغربی دنیا کے تعلقات خراب ہوئے۔ کیونکہ مغرب کو یقین ہوا تھا کہ پاکستان طالبان اور دوسری انتہا پسندوں کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر پاکستان نے اقتصادی طور پر چین کی طرف مزید مضبوط رابطے استوار کئے۔

انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کی آباد کاری کا ارادہ ہے۔ گوادر کی نوے فیصد زمین آرمی اور پنجاب کے دوسرے لوگوں نے خرید لئے ہیں۔ دو ملین لوگ پہلے ہی باہر سے آکر بلوچستان میں آباد کئے گئے ہیں ۔ ان منصوبوں کے بعد مزید تین ملین لوگوں کی آباد کاری کا منصوبہ ہے۔ اس طرح چند دہائی کے بعد بلوچ قوم بلوچستان میں ناپید ہوجائے گی۔ بلوچی زبان تباہی کے دہانے پر ہے۔ بلوچ سیاسی جماعتیں آرمی کی جانب سے شدید تشدد کا شکار ہیں۔ بلوچ قوم پرستی کو دبانے کیلئے پاکستان نے کئی مذہبی انتہا پسندگروہوں کی بلوچستان میں تخلیق کی ہے۔ ڈرگ مافیا اور انتہا پسندوں کو سیکورٹی ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

ڈسکان ایسا نے کہا کہ ہم یغور، سی پیک کے پہلے وکٹم ہیں کیونکہ یہ ہماری سرزمین سے شروع ہوتی ہے۔ چین نے ہمیں غلام بنایا ہوا ہے اور ہم پر زبان، ثقافت اور مذہبی پابندی ہے۔

تاج بلوچ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہماری رسائی پچیس فیصد علاقوں تک ہے اور معلومات تک رسائی اس سے بھی کم ہے۔ سی پیک کی روٹ پر آنے والی تمام گاؤں کو ختم کیا جارہا ہے۔ فوجی آپریشنوں کے ذریعے لوگوں کو اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ گاؤں اور دیہاتوں کا محاصرہ کرکے تمام مرد حضرات کو اُٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے۔ 2005 میں آرمی نے بی ایس او کی قیادت کو اُٹھا کر ایک سال تک لاپتہ کیا۔ 2009 میں مارو اور پھینکو پالیسی شروع ہوئی۔ اب اس نے ایک اور شکل اختیار کی ہے۔ پاکستان آرمی لوگوں کو اُٹھا کر چند ہفتوں مہینوں یا سالوں بعد ان کی لاشوں کو ہسپتال یا لوکل انتظامیہ کے حوالے کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے یہ لوگ دہشت گرد ہیں اور مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ ان میں ٹیچرز اور حتیٰ کہ معزور افراد بھی شامل ہیں۔ یہ سب ہماری ریکارڈ میں موجود ہیں۔ سی پیک منصوبے کی جو کوئی بھی مخالفت کرتا ہے، اسے اُٹھا کر قتل کیا جا تا ہے۔ بلوچستان محاصرے میں ہے، میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ بلوچستان سے باہر رہنے اور بات کرنے والے بھی محفوظ نہیں۔ سبین محمود ایک مثال ہیں، جسے ایک پروگرام منعقد کرنے پر قتل کیا گیا۔ ڈاکٹر منان سی پیک پر خدشات رکھنے اور مخالفت کرنے والے سیاست دان تھے، اسے پکڑ کر سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔
جواد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں صورتحال دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔ ہر کونے میں ملٹری آپریشن جاری ہے ۔ کئی لوگوں کو غائب کیا گیا۔ گھروں کو جلایا جا رہاہے۔ نام نہاد سی پیک کے نام پر بلوچ نسل کشی کی جارہی ہے۔ اس منصوبے کے ڈالرز نے پاکستان کو بلوچ نسل کشی میں مزید مضبوط بنایاہے۔ وہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں پر اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی مجرمانہ خاموشی نے پاکستان کو ان جنگی جرائم میں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ریاستی مظالم کا شکار ہونے پر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان، بھارت اور دنیا میں کیا ہو رہاہے۔

نیازبلوچ نے کہا کہ نوجوان اور طلبا نے غلامی اور جبر کے خلاف ہمیشہ جد وجہد کی ہے اور رہنماؤں کی قربانی دی ہے۔ سی پیک منصوبہ سیندک اور ریکوڈک کی طرح ایک استحصالی منصوبہ ہے۔ بلکہ یہ ان سے بھی بدتر ہے کیو اس سے آباد کاری ہورہی ہے اور پورا بلوچستان متاثر ہو رہاہے۔ پورے بلوچستان میں سی پیک روٹ پر آپریشن کرکے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ کئی علاقوں کو ڈیتھ اسکواڈ کے حوالے کیا گیا ہے۔ بلوچستان کو ایک چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق اور میڈیا کے ادارے بلوچستان کا دورہ کرکے حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔