Center
File Photo

ضلع آواران کے علاقوں میں تیسرے روز بھی آپریشن جاری، علاقہ سیل اور مواصلاتی نظام تاحال بند۔

دی بلوچستان پوسٹ کو تین روز قبل پاکستانی افواج کی بڑی نقل و حمل کی اطلاعت موصول ہوئی تھی، جس نے بعد میں تین روز سے جاری آوران آپریشن کی شکل اختیار کرلی۔ پاکستانی افواج  نے آواران کے مختلف علاقوں کو مکمل سیل کردیا ہے اور عام آبادی گھروں تک محصور ہیں، اسکے علاوہ آپریشن کی شروعات کے ساتھ مواصلاتی نظام  بھی فوجی حکمت عملی کے تحت بند کردیئے گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق تین روز سے جاری آپریشن میں کولواہ اور گردونواح کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ علاقائی زرائع کے مطابق ان علاقوں کے اوپر پاکستانی جنگی جیٹ طیارے مسلسل تیسرے روز بھی پروازیں کرتی رہیں اور ہیلی کاپٹروں کی بھی آمد جاری رہی۔ علاقائی زرائع کے مطابق آپریشن کے شروعاتی دنوں میں فورسز نے آس پاس کے گاؤں پر بمباری کی ہے اور انھیں رات گئے تک شیلنگ کی آوازیں آتی رہی ہیں۔ مواصلاتی نظام بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کا علاقے سے باہر بھی رابطہ مکمل کٹا ہوا ہے، جس کی وجہ جانی و مالی نقصان کی مکمل تفصیلات موصول نہیں ہوپا رہی ہیں۔

اب تک کی موصول ہونے والی اطلاعت کے مطابق پاکستانی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں مشکے سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کی شہادت ہوئی ہے، جنکی شناخت صاحب غنی اور غفور ولد علی محمد کے ناموں سے ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ ضلع آواران بلوچ مزاحمت کاروں کا گڑھ ہوا کرتا تھا مگر 2013 میں آنے والا ہولناک زلزلہ جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جانبحق ہوئے تھے، امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں پاکستانی فوج نے ڈیرہ جما لیا ہے۔ 2013 میں ہی فوج نے ایک ماہ تک چلنے والی طویل فوجی آپریشن کا آغاز کا تھا جسکی وجہ سے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں جانبحق ہونے والوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔

حالیہ آپریشن میں پاکستانی فوج کو مزاحمت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب بلوچ مزاحمت کاروں نے آپریشن کی غرض سے جانے والے فوجی قافلے پر حملہ کردیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد اہلکار ہلاک اور لیفٹیننٹ کرنل سمیت دیگر زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی زمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی ہے۔

دریں اثنا تربت کے علاقے دشت سے پاکستانی فوج کے نقاب پوش اہلکاروں نے دو افراد کو اغواء بعد لاپتہ کردیا ہے۔ اغواء ہونے والے بلوچوں کی شناخت حمید ولد رشید اور لیاقت ولد بیت اللہ کے ناموں سے ہوئی ہے۔

تین روز سے جاری آپریشن میں ضلع کے کئی علاقے اب بھی محاصرے میں ہیں، جس کی وجہ سے مزید نقصان کا خدشہ ہے۔