بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین کی جبری گمشدگی اور ہلاکت کے واقعات کو افسوسناک اور قابلِ مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق اور احترام کے برعکس بلوچستان میں فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں خواتین شدید متاثر ہورہے ہیں۔
فورسز کی کاروائیوں سے جہاں چاردیواری کی تقدس کی پامالی اور گھر میں موجود خواتین و بچوں پر تشدد کی واقعات رپورٹ ہورہی ہیں، وہیں بلا احتیاط فائرنگ کی وجہ سے خواتین کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے واقعات بھی افسوسناک طور پر روز کا معمول بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کارکنوں اور تنظیموں کی نشاندہی کے باوجود حکومت سیکیورٹی فورسز کو پابند نہیں کررہی ہے کہ وہ نہتے خواتین و بچوں پر تشدد یا انہیں فائرنگ کا نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ حکومت کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے فورسز کے ہاتھوں اس طرح کی کاروائیاں بارہا رونما ہو چکے ہیں۔
سترہ اگست کو پنجگور کے علاقے بالگتر میں ایک گھر پر فورسز کی فضائی شیلنگ سے شمس خاتون ولد یوسف نام کی ایک خاتون ہلاگ ہوگئی، اس کے علاوہ ہرنائی کے علاقوں میں فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دو خواتین زخمی ہوئے تھے، جنہیں ان کے لواحقین نے علاج کی غرض سے ہسپتال منتقل کردیا، لیکن اطلاعات کے مطابق ان زیر علاج زخمی خواتین کو فورسز اپنے ساتھ لے گئے ہیں، تین دن گزر جانے کے باوجود ان کی کوئی خبر نہیں۔ اس پہلے بھی خواتین فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک اور فورسز کے ہاتھوں اغواء ہو چکے ہیں، لیکن ان واقعات پر میڈیا اور حکومتی ادارے مکمل خاموش ہیں۔ اس بات کا غالب امکان موجود ہے کہ اگر فورسز کو بلوچستان میں کاروائیوں کی مزید چھوٹ دی گئی تو اس طرح کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے، جو کہ انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بی ایچ آر او نے مطالبہ کیا کہ فورسز کو اس طرح کی کاروائیوں سے روکنے، نہتے لوگوں کو اغواء کرنے یا فائرنگ کا نشانہ بنانے سے روکنے کے لئے انسانی حقوق کے کارکن موثر آواز اٹھائیں، تاکہ بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکھاجا سکے۔