تفصیلی رپورٹ
دی بلوچستان پوسٹ نامہ نگار کے مطابق گزشتہ روز شروع ہونے والا آپریشن تاحال جاری ہے۔ آپریشن کے دوران پاکستانی فورسز نے یار محمد چھلگری کے گھر پرہیلی کاپٹروں سے بھاری شیلنگ کی ہے، جس کے نتیجے میں گھر پر موجود پانچ خواتین جانبحق اور چار خواتین و کمسن بچے زخمی ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق زخمی خواتین و بچوں کو فورسز اپنے ساتھ لے گئے ہیں، جن کی حالت تشویش ناک تھی۔ بمباری کے دوران جانبحق ہونے ہونے والے خواتین کی شناخت کمسن بچی مینو بی بی ، کمسن جعفر، بی بی مخمل، خات خاتون اور بی بی بانو کے ناموں سے ہوئی ہے، جبکہ اس کے علاوہ مزید ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں، تاہم انکے نام تاحال معلوم نہ ہوسکے۔ دیگر چار زخمی بچیوں کو فورسز اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
یہ آپریشن ہرنائی شاہرگ کے علاقے نشپا کے پہاڑی علاقے میں ہوئی، جو تاحال فورسز کے محاصرے میں ہے۔ محاصرے کی وجہ سے جانبحق و زخمی افراد کی مکمل کوائف حاصل نہیں ہوسکے، جس کے وجہ سے شبہہ ظاھر کیا جارہا ہے کہ جانبحق افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نامہ نگار کے مطابق گزشتہ روز ہرنائی و بولان کے علاقوں میں شروع ہونے والا آپریشن تاحال جاری ہے۔ آپریشن کے دوران ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں مختلف گھروں کو فورسز کی جانب سے نظر آتش کیا گیا ہے اور اب تک کی اطلاعت کے مطابق پانچ خواتین سمیت دس افراد جانبحق ہوئے ہیں اور دیگر کئی افراد فورسز اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے ہیں۔
آج فورسز کی سول آبادی پر بلا تفریق شیلنگ کے نتیجے میں جانبحق ہونے والے مردوں کی شناخت کالو مری، لیمو مری اس کے علاوہ وشو مری کے تین بیٹے دلوش مری ولد وشو مری، افضل مری ولد وشو مری، رحمدل مری ولد وشو مری کے علاوہ بنگل مری ولد حاجی بانزو مری کے ناموں سے ہوئی ہے۔ خیال رہے وشو مری کا ایک بیٹا سبزل مری ایک سال پہلے فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہوا تھا جو تاحال لاپتہ ہے۔ ان تمام افراد کی لاشیں تاحال فورسز کی تحویل میں ہیں اور انھیں ورثا کے حوالے نہیں کیا جا رہا۔
واضح رہے سولہ اگست سے ہرنائی سمیت ملحقہ علاقوں میں ایک خونی آپریشن کا آغاز کردیا گیا تھا۔ اس آپریشن کی وجہ سے علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے مگر آج اکتیس اگست کو ایک بار پھر فورسز نے آپریشن کرکے انہیں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں پر نشپا کے پہاڑی علاقے میں نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے جن خاندان کے لوگوں کو آج کے آپریشن میں نشانہ بنایا گیا ہے 2016 اسی خاندان کے پینتالیس خواتین و بچوں کو فورسز نے بولان کے علاقے سانگان سے حراست میں لیکر چار ماہ تک اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔رہائی کے بعد اس خاندان کے افراد نے سانگان سے ہجرت کرکے شاہرگ میں پناہ لے رکھی تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ نامہ نگار کے مطابق اس سے قبل سترہ اگست کو فوج نے ہرنائی کے علاقے شاہرگ پر دھاوہ بول دیا تھا اور اپنے ساتھ سات خواتین اور اٹھارہ مَردوں کو جبری طور پر اٹھا کر لے گئے تھے۔ فوج کی جانب سے اس اغواءکاری میں متعدد خواتین زخمی بھی ہوئی تھیں۔
نمائندے کے مطابق اس آپریشن میں زخمی خواتین، جو علاج کے غرض سے ہرنائی ہسپتال گئے تھے، فورسز اہلکار انھیں بچوں سمیت اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ہسپتال سے اغواء ہونے والوں کی شناخت مہر بی بی اور جان بی بی کے نام سے ہوئی ہے، جبکہ انکے ساتھ دو معصوم بچے نام اختر اور امان اللہ جن کی عمر دو سال ہے، انکو بھی اٹھا کر لے گئے تھے۔
اسکے علاوہ سترہ اگست کو ہونے والے آپریشن میں جن افراد کو اغواہ کیا گیا تھا انکی شناخت بنگڑ خان، نجیب، خیرمحمد، شاہ داد، مستاگ، جلال احمد، غلام حیدر، جنڈو، دوستو، توکلی،رمضان، علی بخش، بلوچ خان، رحمان، قیصراورمنیب کے نام سے ہوئی ہیں۔
اغواء ہونے والوں میں سے دو کی لاشیں اگلے روز اٹھارہ اگست کو ہرنائی کے علاقے اسپین تنگی سے برآمد ہوئی تھی جنھیں فورسز نے قتل کرنے کے بعد پھینک دیا تھا۔ لاشوں کی شناخت بعد میں رمضان ولد علی بخش اور رحمن ولد نورعلی مزارانی مری کے ناموں سے ہوئی تھیں۔ ان میں سے رمضان ولد علی بخش ہاتھ پاوں سے معزور شخص تھا۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ماہ اگست میں شروع کیئے جانے والے آپریشن کو بہت بڑے پیمانے پر جاری رکھنے کا امکان ہے، کیونکہ گزشتہ تقریبا دس دنوں سے زائد بلوچستان کے دوسرے علاقوں بولان، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران، کولواہ اورمکران کے علاقوں میں آپریشن جاری ہے اور ایک قوم پرست جماعت کے جاری کردہ بیان کے مطابق آواران آپریشن میں مقامی افراد کی جانی و مالی نقصان سمیت ایک خاتوں کی عصمت دری کے بھی اطلاعات ہیں۔