انسانی حقوق کی پامالی؛ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے رپورٹ جاری کردی

250

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے سال 2017کے پہلے چھ مہینوں کے دوران بلوچستان میں ہونے والے واقعات کی اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ چھ مہینوں کے دوران بلوچستان میں قتل کے 259واقعات پیش آئے۔ ان میں سے فورسز کی آپریشنوں کے دوران 118 افراد کی ہلاکت کی رپورٹ بی ایچ آر او کو موصول ہوئی۔ حراستی قتل کے واقعات میں دو اسکول ٹیچرز ماسٹر بیت اللہ اور تجابان کے رہائشی ماسٹر حاصل سمیت سیاسی کارکنوں کی 46مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں، فروری کے مہینے میں ڈیرہ بگٹی میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوگئی جس میں ایک خاتون سمیت4 افراد کی لاشیں تھیں، مقامی ذرائع کے مطابق ان لوگوں کو فورسز نے اغواء کیا تھا۔ ذاتی دشمنیوں اورنامعلوم وجوہات کی بناء پر ہونے والے قتل کی 56واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے 13 لاشیں برآمد ہوئیں جو کہ ناقابلِ شناخت حالت میں دفن کردی گئیں، جبکہ مذہبی شدت پسندوں کے حملوں میں ایک صحافی سمیت 26افراد ہلاک ہوگئے۔ پہلے چھ مہینوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے فورسز نے 1302افراد کو جبری طور پر لاپتہ کردیا۔رواں سال کی پہلی شش ماہی کے دوران فورسز کے ہاتھوں جبراََ گمشدہ ہونے والے 267افراد رہا ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ سینکڑوں گھر فورسز کی جانب سے منہدم اور نظر آتش کردئیے گئے، جبکہ متعدد خاندانوں کو فورسز نے جبراََ اُن کے گھروں سے نکال دیا۔ جبری نکل مکانی کرنے والے علاقوں میں ضلع آواران، ضلع کیچ کے علاقے شدید طور پر متاثر ہوئے۔ ضلع آواران کے علاقے کولواہ کے کئی دیہات مکمل طور پر خالی کردئیے گئے، ضلع کیچ کے علاقے ہیرونک، تجابان، شاپک، گوادر سے ملحقہ علاقہ دشت، تمپ اور مند سے بھی سینکڑوں خاندانوں کو جبراََ گھروں سے نکال دیا گیا۔ دشت کی آبادی کا بڑا حصہ اب بھی وہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے گھروں کو نہیں جا سکا ہے۔ آئے روز کی آپریشنوں اور گرفتاریوں سے بچنے کے لئے لوگ اپنی معاشی ذرائع اور مال مویشیوں کو چھوڑ کر حب چوکی، لسبیلہ کے دوسرے شہروں سمیت ایران اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہائش پزیر ہونے کی وجہ سے کسی ایک جگہ پر قیام پزیر نہیں ہیں بلکہ مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اس اہم مسئلے کو مکمل نظر انداز کرچکے ہیں جس کی وجہ سے عالمی ادارے اب تک بلوچستان سے نکل مکانی کرنے والے خاندانوں کی آبادکاری کے حوالے سے کوئی پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے اب تک ہزاروں افراد جبراََ لاپتہ کیے جاچکے ہیں جن میں مختلف رپورٹوں کے مطابق کم از کم پانچ ہزار کی مسخ شدہ لاشین برآمد ہوئی ہیں۔ آئے روز کی ناقابلِ شناخت لاشوں کی برآمدگی سے گمشدہ افراد کے لواحقین شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں، کیوں کہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ برآمد ہونے والی لاش ان کے کسی پیارے کا ہوسکتا ہے۔ صوبائی حکومت ان لاشوں کی شناخت کے لئے ان کا ڈین اے حاصل کیے بغیر ان کی تدفین کرتا ہے۔ صوبائی انتظامیہ بھی بااختیار فوجی و نیم فوجی اداروں کے خوف سے اپنی آئینی زمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے، مذکورہ اداروں کے خوف سے سول انتظامیہ نہ کسی آپریشن کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہیں اور نہ ہی گمشدہ افراد کی ایف آئی آر میں ان اداروں کو نامزد کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال کی وجہ سے بلوچستان کے لوگوں کا اعتماد ریاست کے اداروں سے اُٹھ رہا ہے۔ اگر ریاست بلوچستان کے شہریوں کی آئینی ضروریات کو پورا کرنے اور انہیں تحفظ دینے میں ناکام ہوئی تو اس کے منفی اثرات بلوچستان کی پہلے سے مخدوش صورت حال کو مزید سنگین بنا دیں گے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت کو فوراََ جان دار پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔