افغانستان سے چھوٹے بچوں کو مبینہ طور پر غیر قانونی انداز میں پاکستانی صوبہ بلوچستان کے مدرسوں میں منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں ’طالبان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تربیت‘ دی جاتی ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ماہ کے آغاز پر افغانستان کے مشرقی صوبے غزنی میں ایسی دو گاڑیوں کو روک لیا گیا تھا، جن میں چار سے لے کر پندرہ برس تک کی عمروں کے ستائیس بچے سوار تھے۔ ان افغان بچوں کو غیر قانونی طور پر پاکستانی صوبہ بلوچستان لے جایا جا رہا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق ان بچوں کو بلوچستان منتقل کرنے کا مقصد انہیں وہاں دینی مدرسوں میں داخل کر کے مبینہ طور پر طالبان کی سوچ کا حامی بنانا تھا۔
اے پی کو غزنی کی انتظامیہ نے بتایا کہ ان بچوں کو ایسے مدرسوں میں طالبان کے طور طریقے سکھائے جانا تھے اور تربیت کے بعد انہیں واپس افغانستان بھیجا جانا تھا تاکہ وہ افغانستان میں سخت اور قدامت پسند مذہبی عقائد اور اصولوں کے نفاذ کی کوششیں کر سکیں۔ افغان پولیس نے ان بچوں کی بلوچستان منتقلی کو ’انسانوں کی اسمگلنگ‘ کا نام دیا اور دونوں گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور ان کے دو مرد ساتھیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ان افغان بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ خود یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کوئٹہ میں تعلیم حاصل کریں۔
کوئٹہ افغان طالبان کے لیے کافی اہم شہر ہے۔ افغان طالبان کے کئی ارکان کوئٹہ کے مدرسوں سے مذہبی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ افغانستان میں کوئٹہ کو طالبان کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور کوئٹہ میں طالبان کے رہنماؤں کی مبینہ موجودگی کی وجہ سے ہی ان عسکریت پسند حلقوں میں ’کوئٹہ شوریٰ‘ کی اصطلاح وجود میں آئی تھی۔ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے ایک افسر نے اے پی کو بتایا کہ افغان خفیہ اداروں نے پاکستان میں ایسے 26 مدرسوں کی نشان دہی کر رکھی ہے، جہاں طالبان کی نئی نسل کی تربیت کی جا رہی ہے اور کچھ مدارس میں تو انہیں ’خود کش بمبار‘ بننے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ اس افغان اہلکار کے مطابق، ’’ان میں سے کئی مدارس کوئٹہ میں ہیں۔‘‘
افغان حکام کے مطابق ایسا ہی ایک ادارہ ’شیخ عبدالحکیم مدرسہ‘ ہے۔ اس مدرسے کے ایک معلم عزیز اللہ میاں خیل نے بتایا کہ ان کے ادارے کے کچھ طلبا کا تعلق افغانستان سے ہے تاہم اس معلم نے اپنے ادارے یا اس کے کسی بھی رکن کی طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کی وابستگی کے الزامات کو قطعی طور پر مسترد کر دیا۔
افغانستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک افسر موسیٰ محمودی کے مطابق جنگ، غربت اور مستقبل سے متعلق بے یقینی کے باعث بہت سے افغان خاندان اپنے بچوں کو پاکستان بھیجنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ محمودی کہتے ہیں کہ ہر سال افغان بچوں کی پاکستان میں اسمگلنگ کے تین سے چار واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں ان بچوں سے مشقت کرائی جاتی ہے، کبھی اگر وہ جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں تو کبھی انہیں طالبان اپنی صفوں میں شامل کر لیتے ہیں۔
افغانستان کا ایک شہری محمد نصیر اپنے نو سالہ بیٹے کو کوئٹہ بھیجنے کے لیے پر عزم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا گزشتہ تین سال سے افغانستان کے ایک گاؤں میں پڑھ رہا تھا لیکن وہ نہ لکھنا جانتا ہے اور نہ ہی پڑھنا۔ اب نصیر کی کوشش ہے کہ اس کا بچہ کسی طرح کوئٹہ پہنچ جائے اور وہاں تعلیم حاصل کرے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر افغان والدین اپنے بچوں کو اپنی مرضی سے تعلیم کے لیے بلوچستان بھیجتے ہیں ، تو کیا پھر بھی اسے ’اسمگلنگ‘ کا نام دیا جائے گا اور اگر ہاں تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟