آزادیٔ صحافت کے بارے میں بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی صحافت کو ایشیا کی سب سے زیادہ آزاد صحافت قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم 2018ء کے دوران اب تک پاکستان میں ایک صحافی ہلاک ہو چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، “آزادیٔ صحافت کو انتہا پسند گروپوں، دینی تنظیموں اور انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں نشانہ بننے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔”
صحافیوں کے حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ ہر سال صحافیوں پر قاتلانہ حملے ہوتے رہے ہیں، جب کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان میں اِن اعداد میں “قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔”
بتایا گیا ہے کہ صف آرا کئی گروہ ذرائع ابلاغ کو بے حرمتی کے ارتکاب کا الزام دیتے ہوئے مذمت کرنے پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اہلکار، سیاسی جماعتیں اور پارٹی کارکنان بھی ایسے صحافیوں کو ہراساں کرنے، دھمکی دینے اور حملےکرنے میں دیر نہیں لگاتے، جن کے خیالات کو وہ اپنے لیے غیر ہمدردانہ گردانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اخباری اداروں میں ’از خود سینسرشپ‘ عائد کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے، جب کہ فوج، عدالتی نظام اور مذہب پر نکتہ چینی کے الزام پر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آزادیٔ صحافت کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 189 ویں نمبر پر ہے؛ جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش بالترتیب 138 ویں اور 146 ویں نمبر پر ہیں۔ سال 2016ء کے مقابلے میں پاکستان میں آزادیٔ صحافت کے درجے میں قدرے بہتری آئی ہے، جب پاکستان کا نمبر 147 واں تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے ماڈل کی نقل کرتے ہوئے دیگر ایشیائی ممالک سرکاری تحویل میں خبریں اور اطلاعات جاری کر رہے ہیں۔ خاص طور پر ویتنام اور کمبوڈیا میں۔ شمالی ایشیائی جمہوریتیں اپنے آپ کو متبادل ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغانستان، بھارت، پاکستان اور فلپائن میں صحافیوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں پریشان کُن حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔