ہزارہ نسل کشی اور بلوچ قومی تحریک کا تعلق؟ دی بلوچستان پوسٹ تفصیلی رپورٹ

1944

ہزارہ نسل کشی اور بلوچ قومی تحریک کا تعلق؟

بلوچ اور ہزارہ قوم پرست رہنماوں کا ہزارہ قتل عام کے حقیقی محرکات پر موقف

دی بلوچستان پوسٹ تفصیلی رپورٹ

رپورٹ: بہزاد دیدگ بلوچ

 

گذشتہ آٹھ دنوں سے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ہزارہ قوم ایک بار پھرعلمدار روڈ پر دھرنے پر بیٹھے، اپنے حقِ زندگی اور تحفظ کیلئے سراپا احتجاج ہے۔ ہزارہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری اس دھرنے میں سینکڑوں خواتین، بچے اور بوڑھے شریک ہیں۔ اس دھرنے کا اہتمام بنیادی طور پر ٹیکسی ڈرائیواران کررہے ہیں، دھرنے کا آغاز اس وقت ہوا، جب اکتیس مارچ کو قندھاری بازار کوئٹہ میں ایک ٹیکسی پر فائرنگ سے ڈرائیور جانبحق جبکہ ایک فرد شدید زخمی ہوا تھا۔

یہ واقعہ اپنے نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، بلکہ گذشتہ دو دہائیوں سے جاری ہزارہ نسل کشی کا تسلسل ہے، حکومتی اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ 16 سال کے دوران ہزارہ قوم پر ہونے والے حملوں میں 525 افراد جانبحق اور 700 زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ ہزارہ نمائندہ تنظیموں کے مطابق یہ اعدادو شمار، حقائق کا آئینہ دار نہیں، اموات بہت زیادہ ہیں۔

اسی طرح کا ایک دھرنا ہم  2013 میں بھی دیکھ چکے ہیں، جب دس جنوری 2013 کو علمدار چوک پر سنوکر کلب پر ہونے والے دو دھماکوں میں 100 سے زائد افراد جانبحق اور 150 سے زائد زخمی ہوئے تھے، جس کے بعد لواحقین لاشیں دفنانے سے انکار کرتے ہوئے، دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔

اس بار کے دھرنے میں یہ فرق ہے کہ نا ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نظر آرہی ہے، نا ہی مجلسِ وحدت المسلمین اور نا ہی میڈیا اس دھرنے کو کوریج دینے پر راضی نظر آتی ہے۔ یہ دھرنا عام لوگوں کی طرف سے لگایا گیا ہے گوکہ اس میں حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والی سماجی کارکن اور وکیل جلیلہ حیدر اور ہزارہ سیاسی کارکن پارٹی کے سربراہ طاہر خان ہزارہ متحرک نظر آتے ہیں۔

باقی سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کی بے رخی کے بارے میں دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ ” حکومت اس مسئلے کو دبانا چاہتی ہے۔”

ہزارہ نسل کشی کے مسئلے کو دبانا ہو، اعدادوشمار کم پیش کرنا، یا قاتلوں کا کھلےعام گھومنا، اس بابت ہمیشہ سے حکومت اور خفیہ اداروں پر نا صرف ہزارہ قوم بلکہ بلوچوں کی جانب سے بھی الزام لگتا آیا ہے۔

بادی النظر ہزارہ نسل کشی اور بلوچ تحریک آزادی دو بالکل مخلف امور اور مسئلے نظر آتے ہیں، لیکن ان دونوں کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہے اور یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کیا موجودہ بلوچ تحریک آزادی اور ہزارہ نسل کشی کا ایک ہی دورانیہ ہونا محض ایک اتفاق ہے؟

اسی حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے دھرنے میں شریک ہزارہ سیاسی کارکن کے سربراہ طاہر خان ہزارہ سے بات چیت کی اور ان سے ہزارہ نسل کشی کے حقیقی اعدادو شمار دریافت کیئے ” اس وقت ستر ہزار سے زائد ہزارہ مہاجرت پہ مجبور ہوئے ہیں اور تقریباً دوہزار ایک سو ساٹھ شھید کیئے جاچکے ہیں۔” انہوں نے اعدادو شمار درست کرتے ہوئے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا۔

طاہر خان ہزارہ نے ہزارہ نسل کشی کے محرکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ “ہزارہ نسل کشی کوئی فرقہ واریت نہیں ہے کہ یہ سب کچھ شیعہ ہونے کی بنا پر ہزارہ قوم کے ساتھ ہورہا ہو، دراصل بلوچوں کی تحریک آزادی کو کاونٹر کرنے کی خاطر ہمیں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے، ہمیں قتل کرکے پھر اپنے ہی ” ٹاوٹ” سے آپریشن کا مطالبہ کروایا جاتا ہے۔ ہمارے قتلِ عام میں سیکورٹی فورسز خود ملوث ہوتے ہیں۔”

طاہر خان ہزارہ نے جو موقف دو ٹوک الفاظ میں دی بلوچستان پوسٹ کے سامنا رکھا، یہ الزام نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے مختلف ہزارہ قوم پرست تنظیمیں بین السطور اور بلوچ آزادی پسند ببانگ دہل یہ الزام ریاستی اداروں پر لگاتے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے بلوچ آزادی کیلئے برسر پیکار مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان میرک بلوچ نے 2014 میں ہزارہ قتل عام کے ایک واقعے کے بعد پالیسی اسٹیٹمنٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ  “ریاستی ادارے تسلسل کے ساتھ ہزارہ برادری کا بے رحمانہ طریقے سے قتل عام کررہے ہیں اور اپنے اس انسانیت سوز عمل کو جواز بنا کر بلوچ آبادیوں پر یلغار کرکے، بلوچوں پر مظالم کیلئے جواز پیدا کررہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بلوچوں کو مذہبی جنونیت سے جوڑنے کی سازش کو سرانجام دے رہے ہیں، مظلوم اور بے گناہ افراد کے قتل کو ہم غیر انسانی عمل سمجھتے ہیں۔”

ان تمام عوامل سے ظاھر ہوتا ہے کہ ہزارہ نسل کشی پر مذمتی بیان آتے ہیں، اظہارِ یکجہتی ہوتے ہیں، آنسو بہائے جاتے ہیں لیکن نا کوئی اس نسل کشی کے حقیقی محرکات پر بات کرنے پر تیار ہے اور نا ذمہ داروں کی جانب انگلی اٹھانے پر، اسی لیئے دو دہائیوں سے بلا تعطل آزادی کے ساتھ یہ نسل کشی جاری ہے۔

کیا بلوچ اپنے ہی زمین بلوچستان میں جاری اس ہزارہ نسل کشی سے بے خبر ہیں؟ کیا اس عمل کو بلوچوں کی تائید حاصل ہے؟ یہ سوالات اور ہزارہ نسل کشی اور بلوچ تحریک کے بلواسطہ اور بلاواسطہ تعلق کو مزید سمجھنے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ نے مختلف بلوچ آزادی پسند رہنماوں سے بات چیت کی اور انکا موقف معلوم کیا۔

اسلم بلوچ بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر رہنما اور کہنہ مشق گوریلا کمانڈر ہیں، جب دی بلوچستان پوسٹ نے ان سے رابطہ کرکے ہزارہ نسل کشی پر انکی رائے لی، تو انہوں نے کہا ” کسی بھی بے گناہ کا قتل قابل نفرت عمل ہے، جس طرح سے ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سے یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ ہزارہ نسل کشی کے پیچھے ریاستی مفادات کار فرما ہیں، پاکستان شروع دن سے اسلام اور مذہب کے نام پر اپنے ریاستی مفادات کی تکمیل کرتا آرہا ہے کیونکہ پاکستان کے قومی اور نظریاتی بنیادیں نہیں ہیں، تاریخی شعیہ سنی تضاد کووقت کے ساتھ سعودی عرب اور ایران نے اپنے پالیسوں کا حصہ بنا لیا ہے، انکے پالیسوں کے بیچ پاکستان کا تاریخی کردار اور بلوچستان کے جغرافیائی حیثیت کی اہمیت کی قیمت ہزارہ برادری کو بھی بلوچوں کی طرح انکے قتل عام کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ریاستی قتل عام کی ایک کڑی ہے۔”

بلوچ آزادی پسند یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک ساتھ دو محاذوں پر لڑرہے ہیں، ایک طرف ریاستی فوج اور دوسری طرف مذہبی شدت پسند تنظیموں سے وہ مقابلہ کررہے ہیں۔ انکا الزام ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستی کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے ریاستی سرپرستی میں مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے اور ان تنظیموں کو “ڈیتھ اسکواڈز” کی صورت میں آزادی پسند سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اور اغواء میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہی عناصر ہزارہ نسل کشی میں بھی ملوث ہیں۔

اسی بابت دی بلوچستان پوسٹ نے معروف بلوچ رہنما، بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ اور مزاحمتی کمانڈر ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ سے گفتگو کی اور انکی رائے ہزارہ نسل کشی اور اسکے محرکات کے بابت جانی۔

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے ہزارہ نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “میں ہزارہ قتل عام کا سخت مذمت کرتا ہوں، بلوچوں کے سیکیولر ڈیموکریٹک معاشرے میں ہمیشہ سے ہی مذہبی رواداری اور بردباری رہا ہے، ہزارہ قتل عام کا مقصد ان بلوچ روایات کو پراگندہ کرنا اور دنیا کی توجہ بلوچ قومی تحریک کی طرف سے ہٹانا ہے، تاکہ دنیا کے سامنے یہ ظاھر کیا جائے کہ بلوچستان میں کوئی آزادی کی جنگ نہیں بلکہ یہاں فرقہ وارانہ جنگ چل رہی ہے۔”

جب ڈاکٹر اللہ نظر سے دی بلوچستان پوسٹ نے اس قتل عام کی وجوہات دریافت کئیں تو انہوں نے کہا “اسکے پیچھے لشکر جھنگوی ہے، آپ خود جانتے ہیں کہ یہ وہی پرانا سپاہ صحابہ ہے، جنہوں نے حق نواز جھنگوی کے بعد نام بدل کر لشکر جھنگوی نام رکھ دیا۔ انکی پوری قیادت پنجاب میں ہے، اب وہ اسے بلوچستان میں لانا چاہ رہے ہیں، اس مقصد کیلئے زیادہ تر جرائم پیشہ افراد کو جمع کیا گیا، ان سےنا صرف ہزارہ قتل عام کا کام اور بلوچ تحریک سے توجہ ہٹانے کا کام لیا جارہا ہے بلکہ انہی قوتوں کو بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تنظیم کا گڑھ پنجاب ہے لیکن وہاں انکی کوئی دہشتگردانہ کاروائی نہیں ہوتی لیکن بلوچستان میں یہ آزادانہ گھومتے اور کاروائیاں کرتے ہیں۔”

آخر یہ دہشتگرد تنظیمیں اتنی آسانی سے کیسے اتنے بڑے پیمانے پر دو دہائیوں سے قتل عام کررہے ہیں اور پھر بھی آزاد گھوم رہے ہیں؟ اس حوالے سے ڈاکٹر اللہ نظر کا کہنا تھا “لشکر جھنگوی ہو، لشکر طیبہ، حرکت الانصار، جنداللہ ، جیش العدل ہو یا پھر جیش محمد ان جیسے تمام دہشتگرد تنظیموں کے پیچھے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور ایم آئی ہی کا ہاتھ ہے، یہ سب پاکستانی تذویراتی اثاثے ہیں، ان کو پوری فنانسنگ پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے ہوتی ہے۔”

کیا ان تنظیموں کو بلوچستان میں کسی کی حمایت حاصل ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر اللہ نظر انکشاف کرتے ہیں کہ “ان تنظیموں کو ایسے لوگوں کی حمایت حاصل ہے جو حکومتوں میں ہیں، جیسے لشکر جھنگوی کے سردار عزیز دوسری طرف سے نیشنل پارٹی میں ہیں، جمیعت میں عطاء اللہ اور آغا فیصل جیسے لوگ انکے سہولت کار ہیں، اسی طرح بی این پی کے سردار نصیر موسیانی انکا حمایتی ہے، مکران میں مجید بزنجو اور اسکا بیٹا جو اب وزیراعلیٰ بن گیا ہے، قدوس بزنجو انکے بڑے سہولت کار ہیں اور انکے علاقے میں لشکر جھنگوی وغیرہ کے باقاعدہ دو کیمپ انکے سرپرستی میں چل رہے ہیں، جو ابتک درجنوں بلوچ آزادی پسند مکران میں شہید کرچکے ہیں۔”

بلوچستان کے کم و بیش سارے آزادی پسند تنظیمیں یہی موقف رکھتے ہیں، جب دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچ ریپبلکن آرمی سے رابطہ کیا تو وہ بھی ہزارہ نسل کشی پر یہی رائے رکھتا تھا۔ گلزار امام بلوچ ریپبلکن آرمی کے ایک سینئر کمانڈر ہیں، انہوں نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “بحثیتِ قوم، بلوچ قوم کا ہزارہ قوم سے کوئی ذمینی، قومی، لسانی، یا مذہبی تضاد نہیں۔ اس قتل عام میں ریاستی ادارے براہِ راست ملوث ہیں، جن کو براہ راست سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ریاست، بلوچستان میں مذہبی و لسانی مسئلہ پیدا کرکے بلوچ قوم پرستی کی سیاست کو مبہم بنانا چاہتا ہے، بلوچ قوم اس مسئلے کو ریاستی بربریت تصور کرتا ہے۔”

ان مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں اگر ایک طرف ہزارہ قوم بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے، تو دوسری طرف سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ عام پرامن بلوچ سیاسی کارکنان رہے ہیں۔

بلوچ آزادی پسند مزاحمت کار بندوق سے اپنا دفاع کرنے کا صلاحیت رکھنے کی وجہ سے، کسی حد تک ان شدت پسند تنظیموں سے متاثر نہیں ہوئے لیکن نہتے عام سیاسی کارکنان، پروفیسر، ڈاکٹر وغیرہ انکا آسان شکار بنتے گئے۔ اسی وجہ سے سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان ٹارگٹ کلنگ میں جانبحق ہوئے اور کئیوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں، جن کی ذمہ داریاں یہی مذہبی شدت پسند مختلف ناموں سے قبول کرتی رہی ہیں۔ توتک کی اجتماعی قبر اسکی ایک مثال ہے۔ جہاں شفیق مینگل کے زیر نگرانی مذہبی شدت پسندوں کا ایک کیمپ قائم تھا اور جسکی بنائی ہوئی تنظیم نے خاص طور پر خضدار میں نا صرف سیاسی کارکنان بلکہ ہزارہ براداری سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کی، جن میں ہاشم ہزارہ قابلِ ذکر ہے۔

اسی حوالے سے بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا موقف جاننے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچستان کے سب سے بڑے آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ سے رابطہ کیا اور ان سے بلوچستان میں جاری ہزارہ قتل عام پر انکا موقف دریافت کیا، خلیل بلوچ کہتے ہیں کہ ” ہزارہ قوم کا قتل عام ایک قابل مذمت عمل ہے، ہم اسے انسانیت کے قتل سے تعبیر کرتے ہیں، محض فرقے کی بناء پر کسی انسان کے جان سے کھیلنا درندگی کے سوا کچھ نہیں۔”

جب دی بلوچستان پوسٹ نے دریافت کیا کہ کیا بلوچ سماج میں فرقہ واریت وجود رکھتی ہے؟ تو خلیل بلوچ کا کہنا تھا “فرقہ واریت یا مذہب کے نام پر قتل عام بلوچ روایات میں نہیں ہیں، یہ پاکستان کا دین ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ریاست کی بنیادی تشریح اور تعریف پر قطعاً نہیں اترتا۔ ریاستیں اپنی تاریخ اور تہذیبی پس منظر سے وجود میں آتے ہیں، پاکستان ان سے محروم ہے، اس لیئے ہم کہتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے، ایک غیر فطری ریاست ہمیشہ اپنے آقاؤں کا طفیلی ہوتا ہے۔ پاکستان ایک سے زائد طاقتوں یا آقاؤں کا طفیلی ہے، جہاں تک ہزارہ برادری کے قتل عام کا تعلق ہے، اس میں سعودیہ کا کردار واضح طورپر دکھائی دیتا ہے۔”

ہزارہ قتل عام کے اصل محرکات کیا ہیں؟  اس بابت خلیل بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ کو جواب دیا “پاکستان نے بلوچ قومی غلامی کو برقرار رکھنے کیلئے اور افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے فوج کے ساتھ ساتھ طاقت کے دوسرے بڑے مراکز قائم کررکھے ہیں، جو عر ف عام میں پراکسی کہلائے جاتے ہیں۔ ان درندوں کے پاس مردوعورت کاکوئی تخصیص نہیں ہے، بلا امتیاز انہیں قتل کررہے ہیں اور پاکستان ایک طرف سعودی عرب کے وہابی ازم کے پیچھے چھپے توسیع پسندانہ عزائم کو بجالاتے ہوئے، اسے خوش رکھنے کیلئے مسلک کے نام پر یہ قتل عام کررہا ہے اور دوسری طرف کوشش کررہاہے کہ بلوچ سماج میں بھی فرقہ واریت کی تخم ریزی ہو، تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ بلوچ تحریک خالصتاً قومی تحریک نہیں ہے بلکہ یہاں فرقہ واریت ہے جس میں لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔”

بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنے کا ایک حربہ یا ایک عالمی ” گریٹ گیم” کا شکار یا پھر کچھ مذہبی جنونیوں کے مذہبی جذبات کی تسکین؟ وجہ جو بھی ہو! جواب ایک ہے۔ اس سارے صورتحال میں ہزارہ قوم ایک ناکردہ گناہ کی سزا دو دہائیوں سے بھگت رہی ہے اور روز لاشیں اٹھارہی ہے۔ ساری انگلیاں ریاست پر اٹھ رہی ہیں، ریاست اگر قاتلوں کی سرپرستی نہیں بھی کررہا، پھربھی شہریوں کو تحفظ نا دیکر بلواسطہ شریک جرم ضرور ہے۔