بلوچ قومی سوال
ماضی، حال اور مستقبل
(حصہ اول)
سنگت برھان زئ
وطن عزیز اور اس کے غیور و بہادر باسی خوددار بلوچ صدیوں سے نامساعد حالات کو جھیلتے ہوئے آرہے ہیں۔ بلند و بالا پہاڑلق و دق چٹیل میدانوں و صحراؤں،برف پوش و حسین سبزازار وادیوں موجیں مارتی جھاگ اڑاتی نیلگوں سمندر ،عظیم دروں و قدرتی گذرگاہوں، قدرتی وسائل سے مالا مال گل زمین ہزاراں دستانوں،تہذیبوں،روایاتوں کا مسکن رہا ہے۔ تاریخ کے صفحات اس عظیم سرزمین کے متعلق روز روشن کی طرح عیاں نظر آتے ہیں اور کبھی ماضی کی بلبلیوں میں تاریخ وسعتوں میں کھو جاتے ہیں۔ ہہی وجہ ہے کہ تاریخ دان اور آرکیالوجسٹ اس کی پرسراریت کی وجہ سے مکمل طور پر کچھ کہنے سے فی الحال واضع رائے نہیں رکھتے۔ کیونکہ گل زمین کی جغرافیہ کی وجہ سے تاریخی تسلسل ٹوٹتےہوئے نظر آتے ہیں ۔ کبھی مسلسل چیزیں بنتی بگڑتی نظر آتی ہیں، تو کبھی صدیوں کی تاریکی و خاموشی بھی چھائی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے گل زمین کی واضح پوزیشن معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے غیور فرزندوں کے متعلق کئی شے شفاف نظرآتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود گل زمین ہزاروں سالوں سے اپنے غیور فرزند بلوچ قوم کو سینے سے لگائی ہوئی ہے اور بلوچ قوم اپنے مادروطن کی محبت سے سرشارحق فرزندی ادا کرتے آرہی ہے۔ اس تحریر میں تاریخی حوالے سے کچھ کہنا یا تاریخ بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں، لیکن بلوچ قومی سوال تاریخی اور حل طلب ہے اس لئے ماضی قریب کو یا قومی سوال کی تاریخ کو مختصر کھنگالنا ازحد ضروری ہے لہٰذا پاکستانی قبضہ اور حملہ بلوچ قومی سوال کا اہم سبب بھی ہے اس لئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کونسی کوتاہیاں تھیں اور کون سے عوامل تھے، جس کی وجہ سے پاکستانی نومولود ریاست نے بڑی آسانی سے ہزاروں سالہ بلوچ ریاست کو چند مہینوں میں ہڑپ کرلیا۔
تاریخی تناظر بلوچ ریاست کی تشکیل:
اس بات کا علم شاید بہت سے افراد کو ہے کہ بلوچ ریاست کی تشکیل اپنے ہمسایہ افغان ریاست سے نصف صدی قبل مکمل ہوچکی تھی۔ باوجود اس حقیقت کے کہ بلوچ وحدت بھی اپنے پڑوسی افغان کی طرح قبائلی بنیادوں پر استوار تھا، سن 1666 ء تک بلوچ وطن مکمل شکل میں ریاستی قالب ڈھال چکا تھا۔ مگر اندرونی خلفشار جاری تھا اور جیسا کہ ہر ریاست میں ہوتا آیا ہے اسی طرح بلوچ ریاست میں بھی درباری سازشیں جاری تھیں۔ بلوچ حکمران طبقہ تندھی سے جنگ و جدل قبائلی تصادموں میں الجھا ہوا تھا۔ بلوچ تاریخ پر اگر ہم نظر ڈالیں، تو ہمیں بلوچ تاریخ ماخذ سینہ بہ سینہ بلوچ شاعری میں ملتا ہے جوکہ بعض اوقات عقل تسلیم نہ کرنے والی واقعات بھی لئے ہوئے ہوتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچ قدیمی شعراء نے اپنے معاشرے کے روایات ، شاندار واقعات، جنگ و جدل ، ایفائے عہد غرض یہ کہ جملہ تمام موضوعات کو بیان کرکے اپنے تمدنی زندگی کی عکاسی کی ہے۔
بلوچ عصبیت:
کسی بھی قوم کی عصبیت اس کی تعمیر و ترقی کیلئے اہم اور نہایت ضروری ہوتا ہے۔ تاریخ میں ابن خلدون ہی وہ عظیم مورخ ہو گذرے ہیں، جنہوں نے پہلی بار سائنسی انداز میں عصبیت کو پانچ دھائیوں کے تین ادوار میں نہایت مربوط انداز میں سمودیا ہے، ابن خلدون کا عصبیت کے حوالے سے تاریخی تناظر بہت ہی قیمتی خزانہ ہے۔ بلوچ عصبیت اپنی تاریخی روایت اور مزاج کے حوالے سے بلوچ قوم کے بقاء کا ضامن ہے۔ آپسی جنگوں ، قبائلی شدتوں ،شخصی کمزوریوں کے باوجود اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بلوچ قومی عصبیت ہی نے اس جری قوم کو اب تک قائم و دائم رکھا ہوا ہے ورنہ جس طرح کے تاریخی حالات سے بلوچ قوم گذری ہے اس کی جگہ اس خطے کے کسی اور قوم کو ان حالات کا سامنا ہوتا تو یقینی طور پر وہ قوم کب کا ختم ہوچکا ہوتا اور تاریخ کے تلخ حقائق میں ہی زندہ رہتا۔ لیکن صد آفرین ہے بلوچ قوم کی عصبیت کو جس نے اس قوم کو مٹنے نہ دیا اور آج بھی اس جدید دنیا و جدید زمانے میں قائم و دائم ہوکر اپنی آزادی اور بقاء کی جنگ لڑرہا ہے، حالانکہ نہایت بےسروسامانی میں اپنے سے طاقتور دشمن سے برسرپیکارہے۔
بلوچ قومی آزادی کی تحریک جدید دور میں:
یوں تو بلوچ قومی آزادی کے تحریک خان میر محراب خان اور آپ کے جانثار رفقاء کی عظیم شہادت اور برطانوی قبضے کے بعد ہی شروع ہوئی، مگر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں کافی عرصہ لگا۔ تحریک کو جدید رنگ ڈالنے کا سہرا میر یوسف عزیز مگسی اور آپ کے قابل احترام ساتھیوں کے سر جاتا ہے، یہ ان ہی بزرگوں کی انتھک محنت اور جانفشانی کا نتیجہ تھا، جس کی بدولت 11اگست 1947 میں وطن عزیز بلوچستان برطانوی راج سے مکمل آزاد ہوا اور برطانیہ نے مستعارحبہ علاقے بلوچ وطن کو لوٹادیئے، مگر ڈیرہ جات، خان گڑھ {جیکب آباد} لیہ،تونسہ شریف، بھکر کلاچی {کراچی} اور زیریں سندھ یعنی دریائے سندھ کا مغربی پالٹ ، اس کے علاوہ ہلمند و نمروز اور مغربی بلوچستان{ ایرانی قبضہ } ہنوز حل طلب تھا، بہرحال 11اگست 1947 کو بلوچ وطن کثیر علاقہ آزاد ہوگیا ۔تاریخ میں پہلی بار بلوچستان جدید آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا، یہ آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر بلوچ قوم کو نہیں دی، بلکہ ہمارے اسلاف کی جاں گسل قربانیوں کی بدولت حاصل ہوئی۔ 11اگست 1947 کو خان بلوچ میر احمد یار خان نے بلوچی پرچم جس پر کلمہ طیبہ تحریر تھا فضاؤں میں بلند کرکے اپنی تقریر میں واشگاف الفاظ میں اعلان کیا
”آج سے بلوچستان آزاد ہوگیا، بلوچ وطن کی قومی زبان بلوچی ہوگی،اور ہمارا دین اسلام ہے اس حوالے سے برادر اسلامی ملکوں سے خوصاً اور تمام عالمی برادری سے عموما! پر امن بقاۓ باہمی سے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات استوار کرینگے ، ہم اپنے ہمسایہ ملکوں سے ترجیحی تعاون و تعلق داری رکھیں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک جدید ترقی یافتہ خوش حال اور پر امن بلوچستان دینگے اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کاموں کی توفیق عطا کرے اور بلوچ وطن کو تا قیامت سلامت رکھے۔آمین ۔،،
یہ خان صاحب کی تقریر کا مختصر اقتباس ہے، اس اہم تقریر کی تفصیل مختلف مورخین نے مختلف انداز میں پیش کیا، بہرحال اس تقریر کا لب لباب یہی تھا۔ آزادی کے فوراً بعد بلوچ مقننہ کی تشکیل ہوئی۔ بلوچ مقننہ دو ایوانوں پر مشتمل تھی، بعد ازاں ہر دو ایوانوں نے آزادی کی توثیق کی ۔ لیکن کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے محض نو مہینےکے مختصر عرصے میں وطن عزیز بلوچستان کی آزادی کو سلب کیا گیا؟
خان میر احمد یار خان کی کمزوری اور سازشوں کی مظبوطی:
بات دراصل یہ تھی کہ نومولود ریاست پاکستان اور بلوچ وطن کا پڑوسی اور اس کے حکمران خاص طور پر محمد علی جناح کے خان صاحب اور اس کے خاندان سے ذاتی مراسم بہت گہرے تھے، پاکستانی ریاست اور اس کے حکمران نہایت کمزور پوزیشن میں تھے، جب کافی کشت و خون سے پاکستانی ریاست قائم ہوئی، تو اس کے ساتھ ہی پاکستان کا ریاستی بحران ابھر کر سامنے آیا، کیونکہ اس ریاست کے حکمرانوں کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہ تھا۔ ہندوستانی رہنماؤں سمیت بہت سے عالمی دانشوروں کی رائے تھی کہ یہ ریاست بہ مشکل چل پائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے ساتھ اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی تنازعات کا شکار تھا۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکمران روز مرہ امور کو چلانے کیلئے ہندوستان سے ایک ارب روپے کا تقاضہ کررہے تھے لیکن ہندوستانی حکمراں خاص طور پر وزیر داخلہ ولیم بھائی پٹیل ایک پیسہ بھی دینے کیلئے آمادہ نہیں تھا۔ ان کی دلیل تھیں کہ ہندوستان ایک بہت بڑی آبادی والا ملک ہے چند ریاستوں کے علاوہ باقی ساری ریاستیں انڈین یونین میں شامل ہوگئ ہیں، ہمیں پاکستان سے زیادہ رقم کی ضرورت ہے لہٰذا پاکستان فی الحال کہیں اور سے بندوبست کرلے۔ جب ہمارے اپنے مسائل کچھ ہلکے ہونگے تو پھر ہم پاکستان کو کچھ نہ کچھ ضرور دینگے۔ لیکن پھر اسی اثناء میں گاندھی جی کی مداخلت کی وجہ سے ہندوستانی رہنما کچھ نرم پڑگئے۔ گاندھی جی کا اصرار تھا ہمیں ہر حال میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیئے، لہٰذا ہندوستانی حکمران بمشکل پاکستان کو پچاس کروڈ دینے پر آمادہ ہوئے۔ لیکن یہ رقم بھی پاکستانی ضرورتوں کیلئےبہت کم تھی کیونکہ پاکستان کے پاس آمدنی کے ذرائع مقفود تھے۔ صنعت اور ملیں نہ ہونے کے برابر تھیں، صرف چٹا گانگ اور سیالکوٹ میں ایک آدھ جوٹ ملیں تھیں اور واحد بندرگاہ کراچی میں تھا جہاں ایک دو چھوٹی فیکٹریاں تھیں۔
اس تمام صورتحال سے مایوس ہوکر پاکستانی حکمرانوں نے مغربی ممالک خاص طور پر USA کی جانب رجوع کرنا شروع کیا (ہم یہاں یہ سارے واقعیات اس لئےبیان کررہے ہیں تاکہ ہمارے پڑھنے والوں کو اس زمانے کا پس منظر معلوم ہوسکے کہ ہمارے بزرگوں نے وہ کونسی غلطیاں کئیں، جس کی وجہ سے پاکستان جیسے کمزور و نومولود ریاست نے کئی عوامل کے تحت اپنے آزاد پڑوسی ملک بلوچستان پر جبراّ قبضہ کرلیا ۔حالانکہ وطن عزیز بلوچستان اس سے تین یوم پہلے آزاد ہوچکا تھا اور جیواسٹریٹجک حوالے سے اس کی اہمیت پاکستان سے بہت اہم تھی} مگر USA نے پاکستان کو کوئ اہمیت نہیں دی کیونکہ USA کے حکمران جنوبی ایشیاء میں ہندوستان جیسے اہم اور وسیع و عریض ملک کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے اور اس کے ساتھ مضبوط تعلق داری کیلئے بے چین تھے۔ اس کے علاوہ جنگ عظیم دوئم کے بعد تباہ حال یورپ کی تعمیر میں بہت سنجیدہ تھے تاکہ سویت یونین کے اثرات کو روک سکیں۔ ایشیا میں امریکہ کی دلچسپی جاپان پر قبضے کے بعد اس کی تعمیر اور ہند چینی اور مشرق وسطیٰ میں اس کے مفادات تھے۔ واضح ہو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ یورپی استعماری طاقتیں کمزور ہوچکی تھی، برطانیہ اعظمی کا استعماری سورج ڈوب چکا تھا۔ فرانس کی سامراجیت خاک میں مل چکی تھی سرپر سویت یونین کا خوف سوار تھا۔ یورپ کے سارے وسائل جنگ کے بھٹی میں جھونک دیئے گئے تھے۔ خوبصورت شہر کھنڈر میں بدل چکے تھے لہٰذا امریکہ ہی وہ واحد ملک تھا، جس کی سرزمین دور ہونے کی وجہ سے جنگ کی تباہ کاریوں سے بچ گیا تھا دوسرے تمام سامراجی( برطانیہ، فرانس ، جاپان ، اٹلی ) غرق یاب ہوگئےتھے۔
دوران جنگ امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں نے بےشمار دولت کمائ 46_1945 میں امریکہ کے وسائل دنیا بھر کے وسائل سے تقریباّ چوتھائی سے بھی زیادہ تھے 5,29 ٹریلین ڈالر کے کیش رقم کی بدولت ڈالر کی بادشاہی شروع ہونےوالی تھی۔
امریکی زراعت محفوظ تھا، جس کی پیداواراری لاگت کروڑوں ٹنوں میں تھیں۔ ٹیکساس میں پٹرولیم کے نئے کنویں کھودے جارہےتھے غرض یہ کہ ہر شعبے میں USA ابھر کر ایک نئےاور جدید جواں سامراج کی شکل اختیار کرچکا تھا۔غرض یہ کہ اگر اس کے سامنے کوئی رکاوٹ تھی، تو وہ جدید ترقی پسندانہ نظریات کا حامل سوویت یونین تھا۔ جس کی سرزمین وسیع و عریض، جس کا وژن پختہ جو مظلوم و محکوم قوموں اور طبقات کیلئے امید کا کرن تھا۔ جس کا نظام انسان دوست سوشلسٹ نظام جسکا رویہ دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے ہمدردانہ تھا۔ جو قومی آزادی کی تحریکوں کا مدد گار و حمایتی ہونے کی وجہ سے براہ راست امریکی سامراج کا واضض رقیب تھا۔ اب نیکی اور بدی کی طاقتوں کا نیا معرکہ شروع ہوگیا تھا۔ باوجود یہ کہ سویت یونین دوسری جنگ عظیم کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک تھا۔ اس کے لاکھوں عوام جنگ میں ہلاک و زخمی ہوچکے تھے نازی فوجیں بھپرےہوئے طوفان کی طرح ماسکو کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ مگر سویت عوام اس کی قیادت اور سرخ فوج کا اپنے مادروطن کیلئے عظیم جذبے نے 1943 کے سرماتک نازی افواج کو دھکیل کر پیچھے کردیا۔ پھر سرخ فوج کی مسلسل پیش قدمی جاری رہی۔ نازی فوجیں شکست در شکست سے دوچار ہوتی رہیں۔ مشرق سے سویت فوجیں اور مغرب سے امریکی اور اتحادی افواج آگے بڑھتے رہے (واضع ہو دوران جنگ سویت یونین،USA ,برطانیہ اتحادی طاقتیں اور اٹلی,جرمنی،اور جاپان محوری طاقتیں کہلائی) اس طرح 1945 میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کوشکست دے کر اس پر مکمل قبضہ کرلیا، جاپان نے ایٹم بم کی تباہی کے بعد امریکی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس جنگ کی تباہی کے بعد یورپ کی تعمیر نو کیلئے امریکہ نے ماسٹر پلان تشکیل دیا۔ اب امریکہ اپنے سامراجی مفادات حاصل کرنا چاہتا تھا اور سویت یونین انقلابی تحریکوں کا احیاء کا طلب گار تھا تاکہ ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا خاتمہ ہوسکے۔ چونکہ برصغیر میں ہندوستان کے رہنما تیسری دنیا میں اہم کردار ادا کرنا چاہتے تھے اور ہندوستان کی مزدور تحریک نے اپنے ملک کی آزادی کیلئےنہایت اہم رول ادا کیا تھا اور ہندوستانی کمیونسٹ تحریک بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑی تھی ۔اس کے علاوہ کسان سبھائیں منظم تھیں۔ ہندوستانی بورژوازی بھی لبرل سوچ کے حامی تھے، لہٰذا قدرتی طور پر ہندوستان کا زیادہ جھکاؤ سویت یونین کی طرف تھا۔ لیکن کانگریسی رہنما کمال ہوشیاری سے مغربی ممالک اور USA سے بھی بہتر تعلقات کا آرزومند تھے اور USA پہلے سے اس کے لئے تیار تھا۔ لہذا
پاکستانی حکمرانوں کو اس تمام صورتحال میں کون گھاس ڈالتا۔ ہزاروں منتوں کے باوجود بھی USA پاکستان کو امداد دینے پر رضا مند نہیں ہوا۔اس زمانے میں پاکستانی حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی۔ پاکستانی حکمران سویت یونین کے علاوہ ہر طرف امداد و مدد کےلیئے بےچین تھے۔ لیکن انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
پاکستانی ریاست کی بنیاد رجعتی جاگیردارانہ بنیادوں پر استوار تھا۔ اس کی بیوروکریسی کی تربیت انگریز سامراج کی تھی اس کا چھوٹا سا تاجر طبقہ نہایت تنگ نظر تھا۔ پاکستانی فوج تشکیل نو کے مراحل میں تھے، فوج میں باقاعدہ رجمنٹ اور ڈویژن نہیں تھے۔ بھانٹ بھانٹ کےیونٹوں کو اکٹھاکر فوج کو تشکیل دیا جارہا تھا جس کے جنرلرز ابھی تک برطانوی تھے اس کے پاس جدید ہتھیار نہیں تھے، فضائیہ اور نیوی چند ٹکڑوں پر مشتمل تھے ہندوستان سے چند لڑاکا ہوائی جہاز لینے میں بھی پاکستان ناکام ہوچکا تھا۔ ہندوستانی رہنماؤں کا استعدلال یہ تھا کہ پاکستان کو کہیں سے کوئ خطرہ نہیں، وہ فائٹر جہاز اور ہتھیار لے کر کیا کرے گا۔ حتیٰ کہ ولیم بھائ پٹیل نے یہاں تک کہا کہ ” ہم پاکستان کو اس لئے فائٹر جہاز دیں تاکہ وہ ہمارے پختون اور بلوچ بھائیوں کو ماریں؟ کیونکہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ پاکستانی حکمرانوں کی نگاہیں ڈیورنڈ لائن اور اپنے آزاد پڑوسی ملک بلوچستان کے بے پناہ وسائل کی جانب ہیں۔ یہ تھے اس زمانے کے حالات جس سے یہ ریجن متاثر تھا اس کا حاصل یہ کہ پاکستانی ریاست کمزور، اس کے حکمران تذبذب کا شکار، اس کے پاس ذرائع مقفود، امداد کےلیئے دربدر کی ٹھوکریں اور جواب کچھ بھی نہیں، USA کی توجہ دینا کے دیگر مسائل کی جانب، یعنی پاکستان کی شروعات بحران زدہ ریاست اور عالمی تنہائی اور خوف پاکستانی حکمران اور ایران کے تعاون سے UNO کی ممبر شپ اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں ناپید پھر کیا وجہ تھی کہ ان کمزوریوں کے باوجود پاکستانی ریاست اپنے پرامن پڑوسی اور مسلمان بلوچوں کے آزاد وطن پر شپ خون مارنے میں کامیاب ہوئی اب آتے ہیں، اپنے اصل بحث کی جانب۔
خان میر احمد یار کا تذبذب اور اقدامات سے گریز:
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ خان میر احمد یار خان اور اس کے خاندان کے محمد علی جناح کے ساتھ ذاتی مراسم بہت گہرے تھے۔ خان صاحب نے آزادی کا اعلان بھی کیا یہ آزادی یک طرفہ نہیں تھی بلکہ برطانیہ نے مستعارجہ علاقے بھی بلوچستان کو واپس کئے۔ یہ بات بھی یاد رہے بلوچستان برصغیر کا حصہ نہ تھا اور نہ ہی اس کی حیثیت ہندوستان کے دوسرے ریاستوں کی طرح تھیں اور بلوچستان وائسرائے ہند کے بھی ماتحت نہیں تھا، بلکہ بلوچستان ،نیپال اور بحرین براہ راست برطانوی وائٹ ہال سے منسلک تھے، ان تینوں ممالک کی تجدید تاج برطانیہ کے ساتھ تھےاور ان ممالک کے والیان خودمختار تھے، برطانیہ اختیاراتی معاہدات کے تحت ان تینوں ریاستوں کے خارجی امور چلانے کا پابند تھا، لیکن 11 اگست 1947 کو یہ تمام اختیارات بلوچستان کو واپس کردیئے گئے، لہٰذا بلوچ وطن نیپال اور بحرین سے بھی سبقت لے گیا۔ نیپال اور بحرین 50 اور 60 کی دہائیوں میں مکمل آزاد ہوا۔ کیونکہ پاکستان اور ہندوستان یعنی برصغیر کی مکمل آزادی 14 اور 15 اگست کو مکمل ہوئی۔
باوجود یہ کہ بلوچستان کے مقننہ یعنی ایوان بالا اور ایوان زیریں نے بلوچستان کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے میراحمد یار خان کو مملکت کا سربراہ تسلیم کرلیا۔ مگر خان صاحب تمنا کا دوسرا قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ اور تذبذب میں مبتلا رہے وہ بیک وقت محمد علی جناح سے بھی ملتے رہے اور دوسری جانب بلوچ مقننہ سے بھی وعدے کرتے رہے کہ وہ کسی بھی طرح بلوچ مقننہ کی قراداد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،عجیب بات تھی کہ محمد علی جناح پاکستان کا گورنر ہوتے ہوئے بھی بغیر کسی اطلاع اور بغیر کسی روک ٹوک جب بھی جی میں آتا اپنے آزاد پڑوسی ملک بلوچستان میں وارد ہوتے۔ کبھی سبی آتے تو کبھی زیارت، اور آتے ہی خان صاحب فوراّ ملاقات کیلئے پہنچ جاتے، خان صاحب کو اپنے منصب کا ذرا بھی خیال نہیں تھا، اور نہ ہی کسی آزاد ملک کے سربراہ کا شایانِ شان تھا۔ خان صاحب اسکی بھی تکلیف نہیں کرتے کہ کراچی میں موجود بلوچستان کے سفیر سے معلومات کرتے کہ ایک ملک کا گورنر جنرل تواتر سے ان کے ملک میں کیوں آرہے ہیں، محمد علی جناح بھی تمام تر سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر یہ غیر سفارتی قدم اٹھارہے تھے۔ جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
خان میر احمد یار خان بلوچستان کے سربراہ مملکت تھے، مگر انہوں نے UNO میں بطور سربراہ اپنے ملک کی ممبر شپ کیلئے درخواست بھی نہیں دی، کوئٹہ میونسپل میں موجود مسلم لیگی ارکان کی سازشوں کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا، مسلم لیگ پاکستانی جماعت تھی حیرت کی بات ہے خان صاحب نے ایک غیر ملکی جماعت کو اپنے ملک میں کام کرنے کی اجازت کیوں دیں؟ میر جعفر خان جمالی اور قاضی عیسیٰ ایک غیر ملکی جماعت کی کھلے عام سرپرستی کررہے تھے۔ خان صاحب نے ایک غیر ملکی جماعت پر پابندی لگاکر بلوچستان کے آئین و قانون کے مطابق اس کے ارکان کو گرفتار یا ملک بدر کیوں نہیں کیا؟ یہ باتیں تو اپنی جگہ خان صاحب نے دونوں بلوچ ایوانوں کی اجازت کے بغیر بلوچستان کے قومی خزانے سے 28 ٹن سونا پاکستان کو کیوں دیدی ؟ مکران کے ایک رسالدار بھائ خان اور لسبیلہ کے جام کی سازشوں کا نوٹس بھی نہیں لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ جب محمد علی جناح نے ساری کمزوریوں کو بھانپ کر اور سازشوں کو ہوا دے کر سبی ملاقات میں خان صاحب کو الحاق کے حوالے سے بات کے بجائے دوٹوک جواب دینے کے اس نے محمد علی جناح سے کہا کہ وہ بلوچ پارلیمنٹ جاکر اس تجویز کو پیش کرینگے۔ حالانکہ بلوچ پارلیمنٹ اپنے ملک کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ پہلے دن سے خان صاحب کو سنا چکے تھے۔
خان میر احمد یار خان نے بلوچ مقننہ تو تشکیل ضرور دی لیکن وزارتیں خالی تھیں۔ ملک کا کوئی وزیر خارجہ نہ تھا۔ نہ وزارتوں کی ترتیب ہوئی نہ سیکٹریٹ قائم ہو ئے۔ نہ پولیس کا ادارہ قائم ہوا اور نہ ہی باقاعدہ فوج کی تعمیر ہوئی ۔ یہ وہ ساری غلطیاں اور کمزوریاں تھیں، جس کا فائدہ پاکستانی حکمرانوں نے اٹھایا ۔ خاران ، مکران اور لسبیلہ میں گہری سازشیں ، خان صاحب نے حالات پر قابو پانے کے بجائے، حالات کو اپنے پر قابو پانے کا موقع فراہم کردیا۔ دراصل شروع میں پاکستانی حکمرانوں کی نیت کچھ اور تھی لیکن جب انہیں بلوچستان کی جیواسٹریجک کا پتہ چلا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے، ہوا اصل میں یہ کہ وائسرئے ہند اور بعد ازاں گورنر جنرل انڈیا لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانوی حکومت کا ایک خفیہ خصوصی پیغام لے کر خان صاحب کے پاس آیا۔ غالباً 28 ستمبر 1947 کو یہ اہم پیغام خان صاحب سے ڈسکس ہوا۔ جس میں برطانوی حکومت نے بلوچستان کے ساتھ پندرہ سالہ ایگریمنٹ کرنا تھا، یہ معاہدہ دو ملکی یعنی متحدہ برطانیہ اعظمی اور بلوچ وطن کے درمیان تھا ۔ آزادی کے بعد بلوچستان کا کسی بھی ملک کے ساتھ یہ پہلا معاہدہ ہوتا۔ معاہدے کے نکات مندرجہ ذیل میں دیئے جارہے ہیں۔
1) متحد برطانیہ اعظمی اور حکومت بلوچستان کے درمیان پندرہ سالہ ایگریمنٹ ہوگا۔ بلوچستان اپنی خارجہ اور داخلی معمولات میں مکمل آزاد ہوگا( یعنی ایک مکمل آزاد ملک کی حیثیت سے)
2) برطانیہ اعظمی بلوچستان کی حکومت کی مرضی سے اپنی دو ڈویژن بری فوج ، دو اسکوڈرن فضائیہ ، اور نیوی کے دو اڈے اورماڑہ اور جیونی میں رکھے گا ، اس کے عوض
3) متحدہ برطانیہ اعظمی بلوچستان کی بری ،بحری اور فضائیہ کو جدید بنیادوں پر تشکیل دے کر انہیں جدید ہتھیار فراہم کرے گا رائل ایر فورس خصوصی طور پر بلوچ فضائیہ کو ترتیب دے کر جدید لڑاکا اور بمبار طیارے اور مال برداری کے جہاز فراہم کرے گا۔
4)متحدہ برطانیہ اعظمی اس معاہدے میں دوسال بعد USA کو بھی شامل کرے گا اور بلوچستان کو یہ اختیار دے گا کہ وہ USA سے جداگانہ بھی معاہدے کرے
5) بلوچستان کے انفراسٹریکچر کی تعمیر و ترقی میں بھی معاونت کرے گا۔
6) متحدہ برطانیہ اعظمی اس معاہدے سے الگ بھی اقتصادی، دفاعی ، تعلیمی ، ثقافتی ، اور دیگر معاہدے بھی کرے گا جو دونوں ملکوں کے درمیان ہونگے۔
7) حکومت بلوچستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہر طرح کے معاہدے اپنی مرضی سے کرنے میں مکمل آزاد ہوگا اور برطانیہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔
8) برطانیہ دنیا کے ہر فورم میں بلوچستان کے ہرجائز موقف کی حمایت کرے گا۔
یہ تھا وہ خفیہ پیغام جو ملکہ وکٹوریہ اور برطانوی حکومت کی جانب سے بطور خصوصی نمائندہ جناب لارڈ ماؤنٹ بیٹن لائے تھے۔ میر احمد یار خان پر صرف اتنی پابندی تھی کہ معاہدے ہونے سے قبل اس راز کو افشاں نہ کریں۔ اگر انہیں پریشانی ہوتو وہ بلوچ پارلیمنٹ کے چند ہوشیار اور ذہین ارکان سے مشاورت کرسکتے ہیں۔
اب شو مئ قسمت کہیں یا میر احمد یار خان کی سادہ لوحی جناب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، تھوڑے دنوں بعد مشاورت کے لیئے گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کے پاس تشریف لے گئے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ہونے والی گفتگو اور ساری صورتحال انہیں بتادی۔ محمد علی صاحب نے اس حوالے سے خان صاحب سے کوئی حتمی بات تو نہیں کی صرف اتنا کہا ” اگر آپ اس حوالے سے سنجیدہ ہیں تو فیصلہ سوچ بچار کے بعد کریں کیونکہ آپ ایک خودمختار ملک کے حاکم ہیں۔ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے اس پر میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔” اس مختصر نشت کے بعد محمد علی جناح صاحب دوسرے دن اپنی ڈکوٹا ہوائی جہاز میں لندن جاکر برطانوی اتھارٹی اور پھر براہ راست ملکہ برطانیہ سے ملاقات کرکے شکوہ کرتے ہیں کہ ” برطانوی مفادات کو ہم بہتر طور پر ڈیل کرسکتے ہیں۔ خان میر احمد یار خان سے اس طرح معاہدات پر ہمیں زبردست تحفظات ہیں۔”
برطانوی حکمران اور خاص طور پر ملکہ برطانیہ وکٹوریہ غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ” ہم کس سے کیا معاہدہ کریں یہ ہمارا مسئلہ ہے میراحمد یار خان نے بچوں والی حرکت کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اس میں اہلیت نہیں ہے اب آپ جانے اور احمد یار خان ۔”
جاری ہے