بلوچ قومی سوال
ماضی،حال اور مستقبل
حصہ دوئم
سنگت برھان زئی
خان صاحب کی جلد بازی اور محمد علی جناح سے اس اہم راز کو شیئر کرنے کی وجہ سے برطانوی اتھارٹیز پیچھے ہٹ گئے اور پاکستانی حکمرانوں کو تمام مواقع میسر آگئے، جس کی سازشیں وہ پہلے دن سے ہی شروع کرچکے تھے۔ اگر خان صاحب عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے اور بہترین تدبر سے کام لیتے تو بلوچ وطن اور بلوچ قوم کو بے پناہ فائدے ملنےکے ساتھ ساتھ کوئی بھی ہماری آزادی پر شپ خون نہ مارتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب برطانیہ نے برصغیر کو آزادی دی تو اسے کیا ضرورت تھی کہ بلوچستان کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنی فوج وہاں تعینات کرے، بات دراصل یہ تھی کہ برطانیہ اپنے خلیجی مقبوضات کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان گہرے تعلقات پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا اور اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے مفادات کی بھی پاسداری ضروری تھی، علاوہ ازیں آبنائے ہرمز کو کھلا رکھنے کی پالیسی بھی پیش نظر تھا۔ ان سب مفادات کی حفاظت کیلئے بلوچ وطن کا محل وقوع بہترین پوزیشن میں تھا ۔ لہٰذا اسی لیئے معاہدہ ہونے سے قبل اس کو خفیہ رکھنا نہایت اہم تھا۔ مگر خان صاحب نے جلد بازی میں ساری صورتحال کو تلپٹ کرکے رکھ دیا اور یہ معاہدہ اپنی پیدائش سے قبل فوت ہوگیا۔ جس نے بلوچ وطن کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا۔
” الحاق کا سوال اور پاکستان کا بلوچ وطن پر جبری قبضہ”
ان تمام تر حالات میں برطانیہ نے بعد میں یہ فیصلہ کیا کہ بلوچستان کی آزاد حیثیت ان کے مفادات کیلئے بہتر نہیں ہے، کیونکہ برطانوی حکمرانوں کو یہ خوف تھا کہ قلات نیشنل پارٹی کے قائدین ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے سویت یونین کے زیادہ قریب ہیں یا سویت یونین کو مغربی ممالک سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان اور سویت یونین کے معاہدوں کو بھی خطرہ تصور کرتے تھے اور بلوچ وطن کے خوانین کے افغانستان کے ساتھ بھی تاریخی معاہدے تھے۔ لہٰذا برطانیہ نے ایک خفیہ ٹیلی گرام کے ذریعے کراچی میں اپنے سفارت خانے کے توسط سے گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کو واضع پیغام بھیجا کہ ریاست قلات کا ہر قیمت پر پاکستان سے الحاق کیا جائے۔ کوئی اور صورت حال ہمیں قبول نہیں۔ پاکستانی حکمران تو پہلے دن سے ہی یہی چاہتے تھے لہٰذا اب انہیں اسکی سند بھی مل گئی۔ اسی لئے خاران، لسبیلہ اور مکران میں خطرناک سازشیں کرکے بلوچ کو عدم استحکام سے دوچار کردیا گیا۔ مکران کی اہمیت اس لیئے دوچند تھی کیونکہ بلوچستان کے وسیع ساحل کا بیشتر حصہ مکران میں تھا اس صورتحال میں مکران کے رسالدار بائیخان نے نہایت خودغرضانہ اور غدارانہ کردار ادا کیا۔ اپنے ذاتی اغراض کیلئے اس شخص نے بلوچ وطن کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ لہٰذا محمد علی جناح کا پیغام ملتے ہی بائیخان خفیہ طور پر براستہ گوادر کراچی پہنچ گئے اور انہیں پاکستانی انتظامیہ نے فوراً گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا، جہاں مصحلت وقت کے تحت اسکی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ محمد علی جناح نے جب اس کا استقبال کیا اور اس سے ملاقات کی، اس ملاقات میں سینئر بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب بھی موجود تھے۔
انہوں نے اپنی یاداشت میں لکھا ہے کہ ” بائیخان جب گورنر ہاؤس آئے تو انہیں ویٹنگ روم میں بٹھایا گیا۔ قائدِ اعظم، میں اور دو دیگر آفیسر اسے ملنے ویٹنگ روم میں گئے۔ جب ہمیں اس نے آتے دیکھا تو فوراً اپنی نشست سے اُٹھ گئے۔ جب قائد اعظم نے مسکراکر اس سے مصافحہ کیا تومیں نے دیکھا اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ جب انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو اس کی کیفیت دیدنی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سُن ہوگئے تھے۔ میں نے آگے بڑھکر اس کے دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے بٹھایا۔ پھر جب ہم سب بھی بیٹھ گئے تو قائداعظم نے مجھ سے اور دوسروں سے بائیخان کا تعارف کرایا۔ بائیخان کی شخصیت سے میں بلکل متاثر نہیں ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک جاہ طلب اور چاپلوس آدمی ہیں، اس میں بلوچ والی کوئی خصوصیت نہیں تھی۔ بلوچوں سے میری شناسائی ہندوستان میں سروس کے دوران ہوئی تھی۔ بطور ڈپٹی کمشنر میں ہندوستان کے مختلف اضلاع میں تعینات رہا تھا، وہاں کے بلوچ نوابیں جنہیں مغل بادشاہوں نے جاگیریں عطا کی تھی بڑی شان کے مالک تھے۔ کسی کے سامنے عاجزی نہیں دکھاتے تھے۔ خودار اتنے تھے کہ بڑے سے بڑے حکومتی منصب داروں کو گھاس بھی نہیں ڈالتے تھے، اگر کسی حکومتی منصب داران سے ملنے جاتا، تو طمطراتی اور شانِ بے نیازی سے ملتے تھے۔ مگر بائیخان ان سب بلوچوں کے برعکس نکلے۔”
یہ ہیں ایک پاکستانی سینئربیوروکریٹ کے بائیخان کے بارے میں خیالات، قدرت اللہ شہاب جو کہ ایک پاکستانی اعلیٰ بیوروکریٹ تھے۔ مگر ان کے بارے میں سارے پاکستانی حکومتی عہدیدار بلا تردر کہتے ہیں ، کہ شہاب صاحب نہایت ایماندار اور سچے آدمی تھے۔ بہر حال محمد علی جناح نے بائیخان سے اس کے خفیہ ملاقات کے بعد مکران کے اس رسالدار کو نواب کا ٹائٹل دیکر اسے مکران کا والی بنادیا۔ اس ملاقات کے بعد بائیخان واپس مکران گئے اور پاکستان کے ساتھ مکران کے الحاق کا اعلان کردیا، اس غیر قانونی اعلان کو مکران کے بلوچ عوام نے ماننے سے انکار کردیا اور صورتحال بہت کشیدہ ہوگئی۔ پاکستانی حکمران اسی وقت کے انتظار میں تھے، انہوں نے مکران میں اپنے ٹروپس بھیج دیئے۔ شہزادہ عبدالکریم جو مکران کے آئینی گورنر تھے، انہیں مکران چھوڑنے کا پیغام دیدیا گیا۔ سازشی عناصر اس قدر بےباک تھے کہ خان صاحب ان کے آگے بلکل بے بس دکھائی دیتے تھے۔
مکران کی صورتحال سے جام آف لسبیلہ جسکی تمام تر خواہش و آرزو مسلم لیگ اور جناح سے وابستہ تھے، نواب خاران بھی اسی قبیلے کے آدمی تھے۔ لہٰذا ان دونوں نے بھی اپنے خودغرضانہ مقصد کو عملی شکل دی اور لسبیلہ و خاران کو بھی پاکستان سے وابسطہ کردیا۔ خان صاحب کی سادگی اور کمزوری کی انتہا بھی اپنی مثال آپ تھی۔ جب جناح سبی آئے اور خان صاحب کو بلایا گیا، تو خان صاحب فوراً سبی تشریف لےگئے۔ چونکہ اب سازشیں عروج پرتھیں لہٰذا جناح نے خان صاحب میر احمد یار کو صاف صاف الحاق کے لیئے کہہ دیا۔ ایسی خطرناک صورتحال میں بھی خان صاحب کا موقف معذرت خواہانہ نا تھا۔ بجائے جناح کو دوٹوک جواب دینے کے مختلف باتیں کرتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جناح سے جواب طلب کرتے کہ ایک ملک کا گورنر جنرل ہوتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کو روند کر وہ اپنے پڑوسی ملک میں بلا روک ٹوک کیوں آرہے ہیں۔ میں ایک آزاد ملک کا سربراہ ہوں، مجھ سے ایک ماتحت کی حیثیت سے کیوں پیش آرہے ہیں۔
علاوہ ازیں خان صاحب نے اپنے ملک کے مقننہ( دیوانِ بالا و ایوانِ زیریں ) کا ہنگامی اجلاس بھی طلب نہیں کیا۔ اگر جناح، خان صاحب کو الحاق پر زور دے رہے تھے، تو خان صاحب تاویلیں پیش کرنے سے پہلے جناح سے صرف اور صاف لفظوں میں فرماتے کہ بلوچ مقننہ نے آزادی کی توثیق کردی ہے لہٰذا میں ایک آئینی سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستان یا کسی اور ملک کے ساتھ دوستانہ معاہدہ تو کرسکتا ہوں لیکن مملکت بلوچستان کو کسی بھی حوالے سے کسی اور ملک کے ساتھ مدغم نہیں کرسکتا۔ بلوچستان کے سارے اختیارات بلوچ مقننہ کے پاس ہیں، جو بلوچ قوم کو جواب دہ ہے۔ بجائے دوٹوک جواب دینےکے وقت طول دیتے رہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان نے ٹروپس اپنےپڑوسی بلوچستان میں داخل کرنے کے احکامات دےدی۔ان حالات میں بھی خان صاحب نے UNO کو کوڈ نہیں کیا۔ ایک ملک کی فوج اپنے پڑوسی ملک پر بلا جواز لشکر کشی کررہا تھا ۔مگر ہمارے خان صاحب نے UNO اور عالمی برادری کو مدد کے لیئےدرخواست دینے کی بھی زحمت تک گوارا نہیں کیا ۔ بلآخر 27مارچ 1948 کو پاکستانی فوج نے بین الاقوامی سرحد کو پامال کرتے ہوئے، بلوچ وطن پر چڑھائی کردی اور خان صاحب نے جبری الحاق پر دستخط کردیئے۔
اب بلوچ وطن اور بلوچ قوم پر قہر و جبر شروع ہوگیا۔ قلات نیشنل پارٹی پر پابندی عائد کرکے اس کے قائدین اور کارکنوں کو گرفتار کردیا گیا۔ بہت سے لوگ کراچی اور افغانستان جلاوطن کردیئے گئے۔ سارے بلوچستان میں ایمرجنسی لگادی گئی۔ بہت سے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ حالات کے تقاضے اب یہ تھے کہ اس جبری قبضے کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جائے۔ اس کمی کو شہزادہ عبدالکریم احمد زئی نے پورا کیا۔ محدود وسائل کے ساتھ چند جانثار سرمچاروں کو لیکر افغانستان کوچ کرکے افغان حکومت کے خلافِ توقع جواب کے بعد مزید انتظار کیئے بغیر پہاڑوں اور بیابانوں سے قابض فوج پر حملہ وار ہوئے۔
یہ تھی پہلی انسرجنسی جو پاکستانی ریاست پر ضرب اول تھی گوکہ اس کا دائرہ محدود تھا لیکن اس جنگ نے پاکستانی حکمرانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ بلوچ قوم کوئی تر نوالہ نہیں بلکہ لوہے کے چنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ جبری الحاق یک طرفہ، ظالمانہ اور بین الاقوامی قوانین و اصولوں کی نہ صرف خلاف ورزی تھی بلکہ ہر پہلو سے دھوکہ، فریب، مکاری اور گہری سازشوں کی علامت تھی۔ جو بلوچ قوم کےلیئے ہر لحاظ سے ناقابل قبول تھی۔ گوکہ یہ جنگ تھوڑے عرصے بعد اختتام پذیر ہوئی، لیکن اثرات دوررس ثابت ہوئے۔ اس پہلی انسرجنسی کا خاتمہ بھی پاکستانی ریاست کی مکارانہ چالوں سے ہوا۔
شہزادہ عبدالکریم اور اسکے سرمچاروں کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کےلیئے خان قلات میر احمد یارخان اور دیگر قبائلی عمائدین نے عجب کردار ادا کیا۔ پاکستانی حکمرانوں نے قرآن پاک کو گواہ بناکر ان قبائلی عمائدین کو پہاڑوں میں بھیجا ان عمائدین کے ساتھ پاکستانی فوج کا ایک بریگیڈیئر اور دو میجر بھی شامل تھے۔ جنہوں نے کلام پاک سر پر اٹھارکھا تھا، جسکی وجہ سے شہزادہ عبدالکریم اور ان کے سرمچاروں نے قرآن پاک کی حُرمت کا خیال رکھتے ہوئے، جنگ بندی قبول کی۔ جس کے بعد ایک معاہدہ ہوا کہ پاکستانی ریاست قلات کے تمام اختیارات بحال کرے گا۔ بلوچ علاقوں سے اور سارے بلوچستان سے پاکستانی ٹروپس نکل جائیں گے۔ حکومت پاکستان نئے سرے سے ریاست بلوچستان کے ساتھ بات چیت کرے گی۔ شہزادہ عبدالکریم اور ان کے سرمچاروں کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی ان کی گرفتاری عمل میں آئے گی بلکہ پاکستانی بلوچ وطن کے ساتھ ہر قسم کی بات چیت میں انہیں شامل کرے گی۔ لیکن جیسے ہی ان سرمچاروں نے ہتھیار ڈال کر پہاڑوں سے اترآئے تو پاکستانی فوج نے انہیں گرفتار کیا اور ان سرمچاروں کو قلی کیمپوں میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں ان سب کو دس دس سال کی سزائیں دیکر اور ان کی منقولہ وغیر منقولہ جائیدادوں کو ضبط کرکے انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ یہ تھی حکومت پاکستان کا بلوچوں کے ساتھ پہلا شکستہ معاہدہ۔
بلوچ قومی سوال، ماضی حال اور مستقبل۔ سنگت برھان زئی (حصہ اول
جاری ہے ۔