کرد قومی تحریک کا مختصر جائزہ ـــ عادل بلوچ

1012

کرد قومی تحریک کا مختصر جائزہ
تحریر:عادل بلوچ

تعارف کردستان
کرد ستان ریجن 200,000 مربع میل پر مشتمل ہے ۔کردستان کو مغرب میں الحساکہ شام سے، شمال میں دیارباکر ترکی سے، مشرق میں کرمانشاہ ایران سے،جنوب میں کرکوک عراق سے الگ کرتا ہے۔کرد ستان ایروایشیا کا رابطہ زون تھا اس خطے کے جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی نظریں ہمیشہ اس خطے پر رہے ہیں ۔کردستان کے جغرافیہ میں River Tigris اورRiver Euphratesبہت اہمیت رکھتے ہیں ۔بنیادی طور پر کرد سماج قبائلی و غیر قبائلی لوگوں کا مجموع ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک پیچیدہ سماج ہے جس میں قبائلی، مذہبی، سیاسی اور طبقاتی پیچیدگیاں پائی جاتی ہے لیکن بحیثیت قوم صدیوں سے اپنی متحد قومی شناخت کو قائم رکھے ہوئے ہیں ۔کرد بحیثیت قوم مشرقی وسطٰی میں ہزاروں سالوں سے آباد ہیں9ویں اور10ویں صدی کے درمیان باقاعدہ کردریاست قائم ہوئی جو مختلف کرد حکومتوں میں تقسیم تھی لیکن یہ خطہ ہمیشہ سے عرب، فارس ، ترک منگول، رومن امپائر اور دیگر بیرونی حملہ آوروں کے زد میں رہا ہے ۔ کردوں کی مجموعی آبادی 30تا 35ملین پر مشتمل ہے جو ترکی میں 15ملین ، ایران 6ملین ، عراق میں 9ملین ، شام میں 2ملین ، ارمینیااور اذر بائیجان میں دو لاکھ سے زائد ، یورپ اور دیگر ملکوں میں 10لاکھ سے زائد آباد ہیں جبکہ کرد مشرقی وسطی میں عرب، فارس اور ترک کے بعد چوتھی بڑی نسلی گروہ ہے۔

کردش زبان انڈویورپین زبان کے انڈو ایرانیان برانچ کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس نے دو ہزار سے چار ہزار سال قبل کے درمیان ترقی کی ہے۔ کردش زبان کی کردستان کے مختلف ریجن میں مختلف بولی (dialects )بولے جاتے ہیں ۔ کردش زبان تین مرکزی گروہ شمالی کردش ، وسطٰی کردش اور جنوبی کردش میں تقسیم ہے ۔شمالی کردش بولی جس کو عام طور میں Kurmanji کہتے ہیں جو ترکی،شام اور سابقہ سوویت یونین کے کرد علاقوں میں مکمل اور عراق و ایران کے کچھ حصوں میں استعمال ہوتا ہے ۔Kurmanji کو 65فیصد سے زائد کرد آسانی سے بول سکتے ہیں اور اس کا رسم الخط لاطینی ہے جبکہ سابقہ سویت یونین کے علاقوں میںKurmanji سیریلک Cyrillic رسم الخط میں لکھی جاتی ہے ۔دوسری بڑی بولی وسطٰی کردش بولی ہے جس کو عام طور میں Sorani کہتے ہیں جو کردستان کے عراق اور ایران کے حصوں میں استعمال ہوتا ہے جس کا رسم الخط عربی میں ہے جبکہ جنوبی کردش بھی انہی علاقوں میں استعمال ہوتا ہے ۔

مشرقی وسطی میں عرب، فارس اور ترک صدیوں سے کردش زبان، ثقافت، تاریخ ، تہذیب و تمدن پر پے در پے حملہ آورہوتے آرہے ہیں تاکہ ان کو عرب ، فارس اور ترکش نسل میں ضم کیا جائے ۔ ان طاقتوں کا ہمیشہ سے یہ کوشش رہا ہے کہ کرد علاقوں کو معاشی، سیاسی اور ترقی کے حوالے سے پسماندہ رکھا جائے ، تاریخ کے مختلف ادوار میں انہوں نے کردوں کو تقسیم در تقسیم کیا لیکن کبھی بھی کردوں کے قومی شناخت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔

سولہویں ویں صدی میں کردستان

سلطنت صفوی (فارس) اور سلطنت عثمانیہ اپنے سرحدات کو وسعت دینے کیلئے کردستان کے علاقے میں داخل ہوئے۔23اگست 1514ء کو سلطنت صفوی اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان شمالی کردستان کے علاقے میں The Battle of Chaldiran War (جنگ چالدران ) ہوا۔ انہوں نے مشرق اور مغرب کے سرحدات کو تقسیم کرنے کیلئے 1639ء میں Treaty of Zuhab پر دستخط کیا ۔جس میں انہوں نے کردستان کو چار ریجن میں تقسیم کیا Diyarbakir شمالی کردستان ، Raqqa مغربی کردستان جو موجودہ ترکی اور شام کے سرحدات پر واقع ہے موصل جنوبی کردستان موجودہ شمالی عراق اور مشرقی کردستان Kermanshah جو موجودہ ایران میں واقع ہے یہ کردستان کی پہلی تقسیم تھی جس کے بعد کرد علاقوں میں ان کی باقاعدہ اجارہ داری کا آغازہو ا۔
تین صدیوں تک سلطنت عثمانیہ اور سلطنت فارس نے کرد علاقوں کو معاشی حوالے سے پسماندہ رکھا ، کرد قومی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی اوران کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبورکرکے کرد علاقوں میں عرب، ترک اور فارس کے لوگوں کو آباد کیا جبکہ کردوں کی شہری زندگیوں کو تباہ کرکے ان کو دوبارہ قبائلی زندگیوں کی جانب دھکیل دیا۔ ان بیرونی طاقتوں کے خلاف کرد سماج میں ہمیشہ سے ایک غم و غصے کی لہر پایا جاتا تھا ،کردوں نے مختلف ادوار میں ان طاقتوں کے خلاف بغاوتیں کیے لیکن یہ بغاوتیں زیادہ منظم اور کامیاب نہیں ہوتے تھے۔

16ویں صدی میں کردوں نے عربی و فارسی زبان کے اثرو اسوخ کوختم کرنے کیلئے کردش ادب کو فروغ دیا اور اپنے خطے میں کردش زبان کو وسعت دیا۔1694,95میں احمد کانی کرد نے سیاسی ادب پر کام کیا Mem-o-zinنامی نظم کے ذریعے کردوں کو متحد ہونے اور قومی ریاست تشکیل دینے کا درس دیا۔Haji Qadri Koyi 1817-1897ایک قوم پرست ادیب و شاعر تھے جس نے کردش زبان پر بہت زیادہ کام کیا زبان کی ترقی میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ،انہوں اپنے شاعری اور نثر کے ذریعے کرد قومی پرستی کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد کرد قومی تحریک

1914ء تک کردستان کے سرحدات اسی طرح تقسیم تھے جبکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کردستان کو موجودہ عراق، ایران، شام اور ترکی میں تقسیم کیا گیا۔ 1916 ء میں مغربی اتحاد اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان Sykes-Picot Agreementپر دستخط ہوا۔ جس میں کہا گہا کردستان کو فرانس، برطانیہ اور روس کے زیر اثر علاقوں میں تقسیم کیا جائے گا ، لیکن امریکہ اور روس نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔امریکی صدر وڈرو ولسن Woodrow Wilson کے پیش کردہ چودہ نکات کے نکات نمبر 12میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں آباد غیر ترکش اقوام کی قومی آزادی کو تسلیم کیا جائے اور ان کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی مکمل خود مختیار ریاست تشکیل دے ۔امریکی اصرار کے بعد مغربی فاتح اتحاد اور سلطنت عثمانیہ ایک نئے معاہدے کیلئے تیار ہوگئے جسے Treaty of Suvresکا نام دیا گیا 10اگست 1920ء کو سلطنت عثمانیہ کے نمائندے اور فاتح مغربی اتحاد کے درمیان معاہد ہ سورس Treaty of Suvres پر دستخط کیا گیااس معاہدے میں طے پایا گیا کہ سلطنت عثمانیہ میں آباد غیر ترکش اقوام کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنی قومی ریاست تشکیل دے سلطنت عثمانیہ کے غیر ترکش اقوام میں کرد بھی شامل تھے اس معاہدے کی مسودہ 15ماہ کے طویل عرصے کے بعد تیار ہوگیا تھا ۔ لیکن تنازعہ اس وقتہوئی جب ماڈرن ترکی کے رہنما کمال اتاترک نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا اور اس سے فاتح مغربی اتحاد اور ماڈرن ترکی کے درمیان ایک نئے معاہدے کی ابتدا ہوئی ۔1923ء میں سوئزرلینڈ کے شہر لوززنےLausanne میں7ماہ کے طویل عرصے کے بعد معاہدہ لوززنے Treaty of Lausanne طے پا یا گیا۔ اس معاہدے معاہدہ سورس Treaty of Suvres کو منسوخ کیا گیا اور سلطنت عثمانیہ میں میں آباد غیر ترکش اقوام کی قومی شناخت کو مسخ کرکے ان کو ماڈرن ترکی میں شامل کیا گیا۔عالمی طاقتوں نے ماڈرن ترکی کے ساتھ Treaty of Lausanneپر دستخط کرکے شمالی کردستان کو ترکی ، مغربی کردستان کو موجودہ شام ، جنوبی کردستان کو موجودہ عراق میں تقسیم کیا جبکہ مشرقی کردستان ایران کے حصے میں تھا ۔

شمالی کردستان میں تحریک ترکی کا مقبوضہ علا قہ

اس معاہدے کے خلاف کرد سماج میں قومی ریاست کی تشکیل کے جذبات شدت کے ساتھ ابھرے1920ء سے شمالی کردستان میں ترکی کے خلاف چھوٹے چھوٹے بغاوت کا آغاز ہوتا ہے۔1925ء کو شیخ سید کرد ترکی کے خلاف محدود پیمانے پر بغاوت کا آغاز کرتا ہے اس بغاوت سے کرد علاقوں میں سیاسی شعور پروان چڑتا ہے ۔اس جدوجہد میں کرد قبائلی رہنما ، شیخ، جاگیردار اورد انشور سمیت تمام طبقات کے لوگ شامل تھے کرد قومی شناخت کو محفوظ کرنے کیلئے اس بغاوت کا اہم کردار تھا ۔کمال اتاترک نے اس بغاوت کو کچلنے کیلئے جارحانہ فوجی آپریشن کا آغاز کیا ، ترک فضائی فوج نے کرد علاقوں میں بڑے پیمانے پر بمباری کاآغاز کیا جبکہ کرد علاقوں میں مارشل لاء بھی نافذ کیا گیا ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں پانچ ہزار لوگ قتل کیے گئے ۔ 1939ء تک ترکی نے بڑی حد تک مزاحمت کو کنٹرول کرنے کے بعد Program of modrenization and economic developmentکے نام پر ایک منصوبہ شروع کیا جس کامقصد ترقی کے نام پر کرد قومی شناخت کو ختم کرنا تھا ۔ اس منصوبے میں کردوں کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور کرکے ترکی کے اہم شہروں میں آباد کیا گیا تاکہ کرد اپنے قومی شناخت ، تاریخ ، زبان اور تہذہب و تمدن سے غیر آشنا ہوجائے ۔

ترکی میں کرد مزاحمت کا دوسرا بڑا مرحلہ 1960ء کے دہائی میں شروع ہوجاتاہے اس تحریک کی قیادت نوجوان کرد دانشور کررہے تھے جو ترکی کے شہروں میں آباد تھے ۔ ایران اور عراق کی طرح ترکی میں بھی کرد تحریک میں سوشلزم کے اثرات موجود تھے ۔ 1960ء 1980ء اور 1990کے دہائی میں کرد مزاحمت کی وجہ سے ترکی کو شدید مشکلات کاسامنا تھا ۔کرد مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے تین مرتبہ1960ء،1971ء،اور 1980ء کو فوج نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کیا ۔