کرد قومی تحریک کا مختصر جائزہ”حصہ دوئم” ـــ عادل بلوچ

699

حصہ دوئم

کرد قومی تحریک کا مختصر جائزہ
تحریر:عادل بلوچ

شمالی کردستان میں Partiya Karker234n Kurdistan (PKK)کا کردار
1970ء کے دہائی میں کردوں نے ماضی کے برعکس جدید نیشنل ازم کے اصولوں کے مطابق سائنسی بنیادوں پر کرد قومی ریاست کی تشکیل کیلئے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیاجس میں عبداللہ اوژلان AbdullahOcalan اور اس کی جماعت PKK کا اہم کردار ہے
۔عبداللہ اوژلان PKKکے بانی رہنما ہے جو 4اپریل 1948ء کو ترکی کے کردعلاقے کے کسان خاندان میں پیداہوئے ۔عبداللہ اوژلان نے انقراہ یونیورسٹی ترکی میں پولیٹیکل سائنس میں تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی سے ایک مارکس وادی کارکن تھے، سوشلزم کے حوالے سے پمفلٹ تقسیم کرنے کے الزام میں دوران طالب علمی گرفتار بھی ہوئے تھے ، گرفتاری کے بعد اس کو یونیورسٹی سے فارغ کیا گیا اس کے بعد اوژلان کردستان کے قومی آزادی کیلئے باقاعدہ جدوجہد شروع کرتے ہیں ۔1977ء کو اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک مینوفیسٹو لکھتے ہیں جس کا نام The National Road to the Kurdish Revolution تھا یہ مینوفیسٹوPKK کے وجود کا سبب تھا ۔28نومبر 1978ء کو عبداللہ اوژلان نے باقاعدہ کردستان ورکر پارٹی Partiya Karker234n Kurdistan (PKK)کی بنیاد رکھی ۔PKKنے کرد قومی ریاست کی تشکیل کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا 1979ء کو ترکی میں ان کیلئے گھیرا تنگ ہوتا ہے تو اوژلان اپنے ساتھیوں سمیت شام کے کرد علاقوں میں اپنے کیمپ قائم کرکے پارٹی کے انتہائی اہم رہنماوں کی فوجی ٹریننگ دیتا ہے۔1980ء میں ترکی میں فوج حکومت کا انتظام کنٹرول کرکے کرد قومی تحریک کے خلاف جارحانہ کاروائی کا آغاز کرتا ہے۔PKK طویل مدتی منصوبے کے تحت لیبیا کے پہاڑی علاقوں میں پنا ہ لیتا ہے، اوژلان لیبیا میں فلسطینی تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے اور کرد جنگجو فلسطینی کیمپوں میں گوریلا ٹریننگ حاصل کرتے ہیں ۔ 1980ء کو عبداللہ اوژلان کردستان ڈیموکریٹک پارٹی عراق (KDP) سے تعلقات قائم کرکے عراقی کردستان میں PKKکے کیمپ قائم کرتا ہے اور اگست 1984ء کو ترکی کے خلاف باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جاتا ہے ۔ PKK عراق و ایران کے کرد تنظیموں کے برعکس گریٹر کردستان کی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے ۔ 1984ء کے بعد ترکی کے کرد علاقوں میں8 مزاحمت میں انتہاء سطح تک شدت آگئی تھی ترکی نے کرد مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے ترکی ، شام اور عراق کے کرد علاقوں میں PKK کے مزاحمت کاروں پر باقاعدہ فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ 1993ء میں ترکی نے کردوں کے خلاف آپریشن کرنے کیلئے 20ہزار فوجی اہلکار عراق میں بھیجے جبکہ 1995ء میں یہ تعداد 35ہزار ہوگئی ۔جبکہ امریکہ، نیٹو ،یورپی یونین اور دیگر کئی ممالک نے ترکی کے اصرار پر PKKکو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا ۔ ایک اندازے کے مطابق 1984ء سے 1993ء تک ترکی اور کردوں کے درمیان جنگ میں15ہزار لوگ قتل کیے گئے ۔ PKK نے ایک مہم کا آغاز کیا جس میں مقامی مخبر اور غداروں کو قتل عام شروع کیا ، ترکی نے اس عمل سے فائدہ اٹھا کر کردوں کو آپس میں لڑانے کی سازش شروع کی ۔ 1985ء میں ترکی نے ایک مہم شروع کیا جس کا نام تھا Village Guard System جس میں قبائلی لوگوں کو PKK کے خلاف مسلح کیا، ان کا مقصد PKKکوختم کرنا تھا جس میں کہا گہا تھا کہ اپنے علاقوں کو PKKسے محفوظ کیا جائے ، ان میں قبائلی ، ڈاکواور مذہبی ملاّ بھی شامل تھے ایک اندازے کے مطابق 1993ء تک ان کی تعداد 35ہزار تھی ۔ Village Guard Systemکے لوگوں نے کرد علاقوں میں ظلم و جبر کا بازار گرم رکھا تھا لوگوں کو مارنا ، قتل کرنا اور کو معاشی حوالے سے نقصان پہنچانا معمول کی سرگرمی تھے ان عمل کے خلاف لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا اس عمل سے PKKنے مکمل فائدہ اٹھا کر زبردست عوامی حمایت حاصل کیا ۔اس دوران تین کردش گاؤں تباہ کیے گئے، تین لاکھ لوگوں کو جبراً ہجرت پر مجبور کیا گیا جبکہ پانچ لاکھ کرد 1980تا 1999کے دوران یورپ میں ہجرت کرگئے ۔1994ء کو ترکی نے فوج کو عسکری حوالے سے مضبوط کرنے اور
PKKکے ختم کرنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ عسکری اتحاد قائم کرلیا ۔
PKKمیں عبداللہ اوژلان کا فرضی نام Apoتھا، Apoکردش لفظ ہے جس کے معنی انکل ہے ۔مبینہ طور پر عبدللہ اوژلان پر اپنے سیاسی مخالفین ، عام عوام اور بین القوامی سیاحوں کے قتل کے الزام عائد تھے ۔PKKنے 1980ء میں مسلح جدوجہد شروع کرنے سے قبل اپنے نمائندے جرمنی اور سویڈن میں بھیجے تھے ۔PKK کو یورپی یونین نے کالعدم قرار دیا تھا لیکن PKKکے مظبوط سفارت کاری کے بدولت 1995ء میں جرمن حکومت کے اعلیٰ نمائندوں نے خفیہ طور شام اور لیبیا میں عبداللہ اوژلان سے متعدد فعہ ملاقاتیں کیے تھے ۔ ترکی شامی سرکار کو دباؤمیں رکھتا ہے کہ عبداللہ اوژلان کو شام سے بے دخل کردیں تو نومبر 1998ء کو عبداللہ اوژلان اٹلی روانہ ہوجاتا ہے وہاں ان کے حریف و حلیف ان کو خوش آمدید کرتے ہیں لیکن اٹلی میں عبداللہ اوژلان کو سیاسی پناہ نہیں ملتا جس کے بعد اوژلان کینیا چلاجاتا ہے جہاں فروری1999 ء کو تر کی نے اوژلان کو امریکی مدد سے کینیا میں یونان کے سفارت خانے سے گرفتار کرکے ترکی منتقل کیا ۔ترکی میں اوژلان کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی لیکن اکتوبر 2002ء کو ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کے پیش نظر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا ۔ عبداللہ اوژلان کی گرفتاری کے بعد PKKکی قیادت Karyilal Muratنے سنبھالی اورآزاد کرد ریاست کی تشکیل کے جدوجہد کو جاری رکھا ۔PKKنے1998ء کو عبداللہ اوژلان کے گرفتاری سے قبل فائر بندی کا اعلان کیا اور فروری 2002 ء کوPKKنے پارٹی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے اعلان کیا کہ باقاعدہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کروں گا لیکن 2004ء کو PKKنے اپنے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے مسلح جدوجہد کا دوبارہ آغازکیا ۔ اکتوبر 2007ء کو ترکی کے پارلیمینٹ کے ایک بل پاس کرتا ہے جس میں ترکی کے فوج عراقی کردستان میں داخل ہوکر PKK کے خلاف کاروائی کریں عالمی طاقتیں کاروائی نہ کرنے کیلئے ترکی کو دباؤ میں رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ترکی نے 2007ء سے 2012ء تک متعدد دفعہ عراقی کردستان میں PKKکے بیس ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا۔ 2012ء کو ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان اعلان کرتا ہے کہ عبداللہ اوژلان اور ترکی کے درمیان امن بات چیت شروع ہوچکے ہیں اور مارچ 2013ء میں باقاعدہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ، جنگ بندی کے بعد کرد حمایت یافتہ سیاسی جماعت کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP)نے عام انتخابات میں حصہ لیکر بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل کی تھی جبکہ 2014ء کو داعش عراق و شام کے کرد علاقوں میں حملے شروع کرتا ہے PKKنے داعش کے حملوں کو ترکی کے حمایت یافتہ قرار دیا، اس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوگیا اور جنگ میں دوبارہ شدت آگئی ۔جبکہ معاہدہ ختم ہوتے ہی ترک حکومت نے کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے قیادت کو سیاسی دباؤ میں رکھا اور ان کیلئے سیاسی زمین تنگ کردی گئی تھی ۔10مارچ 2017ء کو اقوام متحدہ کے ایک رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کے بعد2ہزار لوگ قتل کیے گئے۔جولائی 2015ء میں ترکی داعش کے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی اصرار کرتا ہے کہ داعش کے ساتھ شمالی عراق میں PKKخلاف بھی حملے کیے جائے اور ترکی شمالی عراق میں PKKکے بیس کیمپوں پر بمباری کرتا ہے ۔ترکی الزام عائد کرتا ہے کہ PKKنے ترکی میں متعدد سیاسی و عسکری ونگ قائم کیے ہیں جو مختلف ناموں سے ترکی میں سیاسی و عسکری جدوجہد کررہے ہیں سیاسی جماعتوں میں پارلیمانی جماعتیں بھی شامل ہیں ۔
عبدللہ اوژلان معاملے فہم لیڈر ہونے کے ساتھ ایک سیاسی دانشور بھی تھے جنوں نے ’’جمہوری اتحاد ‘‘کا تھیوری پیش کیا جس کے سبب مئی نے 2007ء کو Kurdistan Communities Union(KCK) کے نام سے سیاسی و عسکری پارٹیوں کا اتحاد قائم ہوگیا جو گریٹر کردستان کے متبادل کے طور پر کام کررہا ہے۔ جس میں جنوبی ، شمالی، مشرقی اور مغربی کردستان کے اکثریت سیاسی و عسکری تنظیم و پارٹیاں شامل ہیں۔KCKکرد تحریک کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے جو PKKکا مرہون منت ہے۔
کرد تحریک میں خواتین کا کردار

عبداللہ اوژلان نے کہا کہ جمہوریت ، انصاف و برابری سب سے پہلے اپنے سماج میں پیدا ہونے چاہیے ۔ عبداللہ اوژلان کا موقف تھا کہ‘‘خواتین کی آزادی کردش سماج کی آزادی ہے۔عبداللہ اوژلان کے سماج کے حوالے سے موقف اور اصول نے کرد خواتین کی مسلح جدوجہد کی جانب راغب کیا اور ہزاروں کی تعداد میں کرد خواتین نے پہاڑوں کا رخ کیا اور باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کیا آج کرد خواتین 30سالوں سے مردوں کی برابرمسلح جدوجہد کررہے ہیں ۔ کرد خواتین ایک وقت میں دو محاذوں کا سامناکررہے تھے ، ایک مسلح جدوجہد میں دشمن افواج کے ساتھ دوسرا اپنے سماج کے فرسودہ روایات کے خلاف باقاعدہ جنگ کررہے تھے ۔ عبداللہ اوژلان کہتا ہے اس سماج میں انقلاب برپا نہیں ہوتا جس میں خواتین غلام ہو اوژلان کے اس موقف نے کرد خواتین کو مزید توانائی بخشی ۔عبداللہ اوژلان نے ہمیشہ جدوجہد کی کمزوریاں ، کردسماج میں خاندانی مسائل اور خواتین کے آزادی کے مسائل کے حوالے سے جائزہ لیا اور اپنے تنقیدی رائے کو بیان کیا ۔عبداللہ اوژلان کے سماج کے فرسودہ روایات پر تنقیدی جائزے نے تحریک کو توانائی بخشی ۔ جس وقت عبدللہ اوژلان کے قیادت میں PKKنے کرد سماج میں موجود مختلف مسائل کی نشاندی کی اور ان کی حل کرنے کیلئے سماج میں موجود خواتین سمیت تمام طبقات کے ذمہ داریوں کو واضح کیاتو شمالی کردستان کے علاقے Nusaybiaمیں پہلی مرتبہ کسی خواتین کے قیادت میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ عبداللہ اوژلان کرد سماج میں پدرشاہی نظام کے سخت مخالف تھا اور اس نظام کو ختم کرنے کیلئے Break-Off کا تھیوری پیش کیا ۔ اس تھیوری کا مقصد تھا کہ کرد سماج میں مردوں کی اجارہ داری اور خواتین کی غلامی کو فوری طور پر بغاوت کے ذریعے ختم کیا جائے ۔کرد خواتین کی مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد میں بھی اہم کردار ہے ۔ پہلی کرد خواتین تنظیم Union of Patriotic women from Kurdistan(YJWK) 1987ء کو جرمنی میں اس کا قیام ہوا۔اس تنظیم نے کردستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ خواتین کو بااختیار بنانے کی جدوجہد کیا ۔ 1990ء کے دہائی میں خواتین کی مسلح جدوجہد میں شمولیت بہت تیز ہوگیا۔ مسلح جدوجہد میں 1993ء کو پہلی خواتین یونٹ بنایا گیا اس کے بعد کرد خواتین کی مسلح آرمی بنایا جاتا ہے ۔ 1995ء First Kurdistan Women Liberation Congress منعقد ہوئی اور اس میں Kurdistan Free Womens Union کا قیام میں عمل لایا گیا ۔ کرد خواتین کی جداگانہ مسلح آرمی بنانے کا اہم مقصد یہ تھا کہ خواتین اپنی عسکری طریقہ کار بنائے اور اپنے طریقہ کار کے مطابق مسلح جدوجہد کریں اس عمل نے کرد قومی تحریک میں خواتین کو مکمل بااختیار بنایا اور خواتین کوجدوجہد میں مزید حوصلہ افزائی ہوئی ۔ کرد خواتین کے مضبوط سیاسی و مسلح جدوجہد کی بدولت 1995ء بیجنگ چین میں منعقد ہونے والا United Nation Women Conference میں
کرد Kurdistan Free Womens Unionکو مدعو کیا جاتا ہے۔ 8مارچ 1999ء ایک اور تنظیم بنائی گئی Kurdistan Working Womens party(PJKK) کے نام سے جس کا مقصد قومی تحریک میں خواتین کی شمولیت کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے اور سماج میں پدر شاہی نظام کو براہ راست چیلنج کیا جائے ۔ سن 2000ء میں اس پارٹی نے کردستان سمیت پوری دنیا کے خواتین کے آزادی کیلئے جدوجہد شروع کیا جس میں اپنے نام میں ترمیم کرکے Women Liberation Party(PJA)رکھا گیا۔ 2004ء میں Kurdistan Womens Liberation Party کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد خواتین کی مسلح جدوجہد کو تیز کرنا تھا ۔ 2005 ء High Womens Council(KJB) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد کردستان سمیت دنیا بھر میں موجود کرد خواتین کو جدوجہد کے حوالے سے متحد کرنا تھا ۔ KJBکے قیام کے بعدکرد سماج میں خواتین کرد سماج کے نگہبان ہوگئے اور سماج میں ان کے مقام و رتبے کو پذئرائی بخشی گئی اور اس کے قیام کے بعد جدوجہد میں مزید تیزی لائی گئی ۔1991ء کے جدوجہد میں کرد خواتین جنگجو نے ترکش آرمی، پولیس اور تنصیبات پر پے در پے کامیاب حملوں نے کرد تحریک کو ایک نئی توانائی بخشی ۔30جون 1996ء کو خواتین گوریلہ Zilan ترکی کے آرمی فریڈ میں خودکش حملہ کرکے درجنوں فوجیوں کو قتل کرتا ہے کرد خواتین جنگجو ؤں کا فدائی حملو ں میں اہم کردار ہے۔کردخواتین رہنماؤں میں SakineCansiz اور Base Hozatکا اہم کردار ہے جو PKKکے بانی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں واضح رہے کہ2013ء میں SakineCansizکو فرانس میں قتل کیا گیا ۔ کردخواتین کے جدوجہد نے کرد سماج میں سماجی انقلاب برپا کیا ان کے جدوجہد کے اثرات نہ صرف سیاسی تھے بلکہ سماجی ، معاشی اور ثقافتی حوالے سے بھی ان کے گہرے اثرات تھے ۔ کرد خواتین کے جدوجہد نے کرد سماج کو ازسر نو جنم دیا ۔

کرد قومی تحریک کا مختصر جائزہ ـ”حصہ اول” ــ عادل بلوچ