تاریخ بدلنے والا عمل – منیر بلوچ

437

تاریخ بدلنے والا عمل

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی نے کہا ہے کہ پاگل تاریخ بناتے ہیں اور سمجھدار اسے پڑھتے ہیں۔ ایک مقبوضہ ریاست میں جہاں مظلوم قوم کے فرزندوں کو اٹھایا جاتا ہے ان کے اہلخانہ کو ذہنی تشدد کے عمل سے گزارا جاتا ہے,بلوچ قوم کے ماوں اور بہنوں کو سڑکوں پر احتجاج پر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے, کمیشنوں کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں دھمکی اور جبری گمشدگی سے لیکر تشدد کے واقعات میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ایسے عمل کے خلاف رد عمل ضروری امر ہے اور ایسے ردعمل ہمیشہ پاگل لوگ ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ان کا پاگل پن ان کا وطن ہوتا ہے جبکہ سمجھدار لوگ بس تاریخ پڑھ کر اس عمل کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاگل پن کیسے جنم لیتا ہے؟ درد,احساس, مشترکہ غم ہی انسان کو پاگل بننے پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ پاگل پن عام پاگل پن سے مختلف ہے کیونکہ یہ ایک شعوری پاگل پن ہے جو اپنائیت کا احساس دلاتا ہے اور یہ اپنائیت تاریخ کو بدل دیتا ہے اور ایسے اعمال سر انجام دینے والے لوگ نہ صرف امر ہوتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے میں رہنے والے سینکڑوں افراد کو اس بدلنے والی تاریخ کا حصہ بناتے ہیں۔

بلوچستان پاگلوں کی سرزمین ہے جو اپنے وطن کے لئے مرنے کا ہنر جانتے ہیں جو اپنوں کے غم وخوشی میں شریک ہونے کا ہنر جانتے ہیں۔جو درد کا احساس رکھتے ہیں اور آج دنیا کو ایسے ہی پاگلوں کی ضرورت ہے جو دنیا کے ظالموں کو ان کی درندگی سے روک سکے۔شہید بلوچستان شہید احمد داد کہتے ہیں کہ میں پاگل بننا چاہتا ہو کیونکہ پاگل وہ کرسکتے ہیں جو عام انسان نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹر اللہ نذر پاگل ہے جو پروفیشنل ڈاکٹر ہونے کے باوجود سماج کو بدلنا چاہتا ہے۔بشیر زیب پاگل ہے جو انجینئر ہونے کے باوجود مسلح تنظیم کا سربراہ بن جاتا ہے۔استاد اسلم پاگل تھا جس نے سنت ابراہیمی پر عمل کرکے اپنے بیٹے کو قربان کرکے فلسفہ عشق کو زندہ کیا۔ شاری بلوچ پاگل تھی جس نے شعبہ حیاتیات میں ماسٹر کرنے کے باوجود فدائی بننے کا فیصلہ کیا۔

شہید سمعیہ قلندرانی کا عمل بھی پاگل پن تھا جو ایک مستقبل کو چھوڑ کر فدائی بن گئی لیکن یہ پاگل پن ایک تاریخ بدلنے والا عمل تھا اس لئے ہمارے کچھ سمجھدار لوگوں کی برداشت سے باہر ہے کیونکہ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہم جیسے سمجھدار لوگوں کی موجودگی میں اس پاگل پن کی کیا ضرورت پیش آئی؟ نہ صرف یہ عمل ان کی برداشت سے باہر ہے بلکہ شہید کے عمل نے ان کا وہ چہرہ بھی بے نقاب کردیا جو خواتین کو برابری کا درجہ دینے کے متعلق تھا۔ ان کا وہ چہرہ بھی نے نقاب ہوگیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عورت اور مرد جدوجہد آزادی میں برابری کی بنیاد پر جہد کریں۔

بلوچ قوم کے رہنماوں اور جہد کاروں کا ایمان ہے کہ وہ آزادی کی جدوجہد کو کامیاب اپنے عمل و کردار سے بنائیں گے نہ امریکہ ہمیں آزادی دیگا اور نہ ہی یورپ اور انڈیا بلکہ ہماری آزادی ہمارے عمل پر منحصر ہے اور موجودہ سمجھدار لوگوں کی نظر میں تاریخ کا دھارہ بدلنے والے لوگ پاگل ہوتے ہیں اور بحیثیت جہد کار ہم مانتے ہیں کہ ہم شعوری پاگل پن کا شکار ہے جو ہمیں اپنے زمین کے لئے ہر طرح کے عمل و قربانی سے دریغ نہ کرنے کا درس دیتا ہے۔

بلوچ قوم کے فرزند و دختر اس تاریخ بدلنے والے عمل کا حصہ بن کر اپنے شعوری پاگل پن کا احساس دلارہے ہیں اور مستقبل میں بھی دلاتے رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں