عورت کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو ۔ ڈاکٹر برمش

918

عورت کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو 

تحریر: ڈاکٹر برمش 

دی بلوچستان پوسٹ

جب دشمن تمہارے گھروں پہ توپیں داغیں تو آپ آکر ان گولوں کو سمجھا دیں کہ عورت کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب تمہارے بھائی، والد، شوہر یا بیٹے کو گھسیٹتے ہوئے تمہارے آنکھوں کے سامنے سے لے جائے اور آپ خود کو یہ کہہ کر غمزدہ نہ کریں کیونکہ عورت کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب تمہارے گھر جھلسے ہوئے، کریدے ہوئے، سینہ چاک ہوئے، گولیوں سے چھلنی وہ لاشیں آئیں جن کے زندہ لوٹنے کے لیے تم انتظار میں تھے تو ماتم نہ کریں کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کریں۔

جب تمہارے گوادر میں اسّی فیصد ڈومیسائل پنجابیوں کے ہو، نوے فیصد نوکریاں انہی کے ہوں اور اس کے ساتھ چائینز بھی آپ پر مسلط ہو، آپ مقامیوں کے لیے حالات اتنے تنگ ہو جائے کہ آپ اپنے زمین سے کو چھوڑنے پہ مجبور ہوجاؤ تو خاموشی سے اپنا بوریہ بستر باندھ کر روانہ ہوجاؤ کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب تمہارے ریکوڈک کا سونا اور چاندی دشمن اپنے اُدھار چکانے کے لیے ادا کرے اور تمہیں بدلے میں کینسر عطا کرے تو آپ خاموش رہے کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب میرٹ کا نعرہ لگے تو آبادکار مات لے جائے کیونکہ اس کی تعلیمی ادارے سہولیات سے آراستہ ہیں اور کاروبار کی بات آئے تو آبادکار بازی لے جائے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے، اپنے زمین پہ تم بھیک بھی نا مانگ سکو اور بھوک موت کا مداوا ہو جائے تو قبول کرلو کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

کب تمہارے خاندان کے سینکڑوں لوگ لاپتہ کیے جائے پھر سال بھر بعد تم اپنے علاقے میں سینکڑوں لاشوں کو اجتماعی قبروں سے نکلتے دیکھوں اور ان سڑے ہوئے جسموں کو دیکھنے کے محض اس لیے جاؤ کہ شائد وہ تمہارے اپنے ہو اورآپ قابل رحم حالت میں اس درد کو محسوس بھی نہ کرو کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب تم نو ماہ اذیت میں اپنے پیٹ میں ایک نئی زندگی کی پرورش کرو اور جب پیدائش کا وقت آئے تو نہ ڈاکٹر ملے نا ادویات اور تم یا وہ ننھی زندگی بغیر کسی جرم کے پاداش میں موت کے آغوش میں چلے جاؤ تو دکھی نا ہو کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب ہوس زدہ فوج سرچ آپریشن کے بہانے تمہارے گھر میں گھس آئے تمہارا دوپٹہ اُتارے، مرد حضرات موجود نہ ہو تم سے جبراً زنا بھی کرلے، تم خاموشی سے سہہ لو اور ان کے جانے کے بعد دوپٹہ سر پہ ڈال کر اب کچھ بھول جاو کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

جب تم تعلیم حاصل کرکے اپنے علاقے میں اپنے قوم کے بچوں کو پڑھانے کے لیے جاؤ اور دشمن کے ایجنٹ تمہیں اتنا مجبور کرلے کہ خودکشی کر لو مگر جنگ نا کرو کیونکہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

آپ کی پہچان آپ کے لیے خظرہ ہو، ڈیتھ اسکوڈ جب چاہے تمہاری آبرو چاک کرلے، فوجی بن بُلائے تمہارے گھر میں گھُس جائے، فاقو میں اپنے بچوں کو مٹی کے بسکٹ بنا کے کھلاؤ، زچکی، سیلاب ہیضہ، ایکسیڈنٹ، کینسر، ملائیت اور دیگر سماجی جرائم میں بے کساس مارے جاؤ، سرکار تمہارے لاش پہ بہانے رچانے تمہیاری عزت تار تار کرکے، سردار کے ہاتھوں قتل کرواکے، ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں روڈ پہ تمہاری مسخ شدہ جسم پہ ڈرامے رچاکے اور مقصد پورا ہونے پہ لاوارث چھوڑ کر چلی جائے، روز غُلامی تمہارے چہرے پہ تھوکے اور تم جنگ کی سب سے کمزور شہہ رہ کر لمحہ لمحہ ازیت میں گُزاروں اور جب تم اسی غلامی کے خلاف بغاوت پہ اُتر آو تو آواز آئے کہ عورت کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

صاف صاف کہوں کہ غلامی کے خلاف جنگ بند کرو، اپنی نسل کشی پہ خاموش رہو، دشمن کے درباری بن کر زندگی جی لو، انتظار کرو جب دشمن تمہارے زمین پہ مکمل آباد ہوجائے تمہیں چوکیداری کے لیے دھتکار کے ساتھ ایک نوالہ دے دے اور تم خوشی سے زندگی گُزار لو۔ یہی دشمن کا نعرہ یہی تمہارا نعرہ، ہیف ہے ان بزدلوں پہ جو یہ بھی کہہ نہیں سکتے کہ ہم ڈرپوک ہے، ہم سیاسی سیاسی کھیل کر مر جانا پسند کرینگے مگر نا جنگ کی سکت رکھینے نا جنگجوئوں کو بخشینگے، ہیف ہے اُن عورتوں کے حقوق کے لیے نعرہ بازوں پہ کو بلوچ عورتوں کو لاہور کے منڈئیوں میں بیچنے پہ مذمتی بیان دیکنگے، اور جب یہ اپنے لج میار زندگی اپنے غلامی کی خلاف بغاوت کرینگے تو بولینگے کہ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔

یہ جنگ دشمن کی طرف سے رائج ہے، اس جنگ کو اگر بلوچ لڑ رہا ہے تو اپنے بقا کے لیے، اپنے آزادی کے لیے، ڈرپوک اپنے ڈرپوک ہونے کا اسی طرح اعلان کرلے جیسے بے ضمیر اپنا ایمان بیچ کر دشمن کے آلہ کار ہونے کا اعلان کر چکے ہے، جو بھاگنا چاہتے ہے بھاگ جائے اور جو اسے لڑ سکتے ہے دل کھول کے لڑے اور جو ان جانبازوں کو سجدہ کرسکتے ہے وہ سجدہ کریں،قصیدے لکھیں اور اُس تاریخ کو اوراق پہ اُتارے جو وطن کے جانباز اپنے خود سے لکھ رہے ہے، کیا مرد کیا عورت کیا بچے کیا بوڑے، یہ تو سب میرے وطن کے پاسبان ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں