وہ قومیں زندہ رہیں گے جو اپنے شہداء کے مشن کو آگے لے جائیں گے۔ این ڈی پی

231

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شال زون کی جانب سے شہید نذیر مری کی 11 ویں برسی کے مناسبت سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔

سیمنار سے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، این ڈی پی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بزدار، نذیر شہید کے فیملی ممبران ضیاء الرحمن بلوچ، عمران بلوچ اور شہید نذیر مری کے اسٹوڈنٹس عابد عدید، محمد عمران لہڑی و دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیے، آفتاب بلوچ نے ڈاکٹر سیلم کرد کا مقالہ پڑھا، شہید نذیر مری کے زندگی پر ایک ڈاکومنٹری پیش کیا گیا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این ڈی پی کی جانب سے آج یہ پروگرام منعقد کیا گیا ہے یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ وہ اپنے ان شہیدوں کو بھول نہیں گئے جو اپنی خون دئیے، اپنی زندگیاں قربان کیے، مشکلات اور مصائب دیکھے ہیں اسی طرح ہمارے اور بھی بہت سے شہداء ہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ان تمام شہداء کی یاد منائی جائے، ان پر لکھا جائے کیونکہ جب آپ ان کو یاد نہیں کرینگے، ان پر نہیں لکھیں گے گوکہ ان شہداء کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ جس مقصد کیلئے یا اپنی جانیں قربان کیے، پھر وہ ان تمام چیزوں ماورا ہو جاتے ہیں، لیکن ان کو یاد کرنا ہماری ضرورت ہے، جب آپ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ان چیزوں کو ریکارڈ پر نہیں لائیں گے اگر ان کو نہیں لکھیں گے تو ہماری آنے والی نسلوں کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ہماری آباء اجداد نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔

مقررین نے مزید کہا کہ شہید نذیر مری نہ صرف بابا مری کے قریبی ساتھی ہی نہیں بلکہ وہ ایک استاد بھی تھے، لیکن پنجاب کی جانب سے یا ہمارے نام نہاد صحافی اور دانشور بھی یہی بات کرتے نہیں تکتے کہ بلوچ اسی لیے پسماندہ ہیں کہ وہ تعلیم حاصل نہیں کرتے وہ نہیں پڑھتے، لیکن دوسری جانب ہمارے ان استادوں کو جو ہمیں تعلیم دیتے ہیں ان کو نہیں بخشتے، انہیں لاپتہ کر دیا جاتا ہے یا انہیں شہید کر دیتے ہیں تو تعلیم کہاں سے آئے گا، شہید نزیر مری سمیت ہمارے استاد صباء دشتیاری، زاہد آسکانی، پروفیسر رزاق زہری جیسے استادوں کو شہید کیا گیا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مسئلہ تعلیم کا نہیں ہے اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔

بہت سے ہیروز ہیں جو زندانوں میں آج بھی قید ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں ہمیں ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے کس طرح وہ لوگ زندانوں میں جی رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں اور جو اذیت سہے رہے ہیں ہم اگر ان کو بھول جاتے ہیں تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گے اور ہم تاریخ کے مجرم ہوں گے، انہیں جو کام کرنا تھا وہ کر کے چلے گئے اب آگے ان کے نقشے قدم پر چلنا ہمارا فرض ہے ہمیں بھی بہت سی قربانیاں دینی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے بہت کچھ کرنا ہے اگر وہ بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی کاز کو بھول جاتے تو شاید انہیں بھی بہت زیادہ مراعات ملتی لیکن وہ جس مشن کے لیے نکلے تھے وہ انہوں نے پورا کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ وہ قومیں زندہ رہیں گے جو اپنی شہداء کے بارے میں معلومات رکھیں گے ان کی مشن کو آگے لے جائیں.

شہید نذیر مری پیشے کے اعتبار سے ایک استاد تھے وہ 4 اپریل 1955 کو محمد مراد کے گھر کوئٹہ میں پیدا ہوئے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سنٹرل ہائی سکول سے حاصل کی۔ اور مزید تعلیم کیلئے بلوچستان یونیورسٹی چلے گئے ۔اور اس کے بعد محکمہ تعلیم میں بطور استاد کے بھرتی ہوئے اور مختلف جگہوں پر اپنی خدمات سرانجام دیئے، آخر وقت تک کلی شیخان ہائی اسکول میں وائس پرنسل کی حیثیت سے اپنے خدمات سرانجام دیتے رہے. شہید نذیر مری کا خاندان شروع دن سے نواب خیر بخش مری کے نائب کے طور پر کام کر رہے تھے، اسی مناسبت سے شہید نذیر مری بھی نواب خیر بخش مری کے قریبی ساتھی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ نواب خیر بخش مری سے تعلق کی وجہ سے شہید نذیر مری کو مختلف اوقات میں لاپتہ کیا گیا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیے، ذہنی اور جسمانی ٹارچر برداشت کرتے رہے مگر آخر دم تک نواب خیر بخش مری کے فلسفے کے ساتھ کھڑے رہیں۔ حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے انہیں متعدد دفعہ لاپتہ کیا گیا اور آخرکار انہیں 19 جون 2012 کو کلی شیخان ہائی سکول کے سامنے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے شہید کیا گیا.