بی ایس او کی جانب سے دو روزہ تربیتی ایونٹ شال میں منعقد

148

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے 17 اور 18 جون کو کیڈر بیسڈ ”نیشنل اسکول“ شال میں منعقد کیا گیا، جس میں تمام زونز سے کیڈرز نے شرکت کی۔ دو روزہ مرکزی کیڈرساز ادارے میں بین الاقوامی و قومی تناظر، بلوچ قومی سوال، پولیٹیکل اکانومی، جدلیاتی مادیت اور انقلابی تنظیم کے موضوعات زیر بحث رہے۔ نیشنل اسکول کا آغاز بلوچ و دنیا بھر کے تمام انقلابی شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی، بلوچ راجی سوت اور مرکزی چیئرمین کے افتتاحی کلمات سے کیا گیا۔

بی ایس او چیٸرمین چنگیز بلوچ نے بی ایس او کے تمام ممبران کو کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کی اور ”نیشنل اسکول“ کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں سامراجیت کے پنجے بلوچ و دیگر محکوم قومیتوں کو جکڑے ہوئے ہیں۔ جبر و تسلط پر قائم ان سخت حالات کے اندر بی ایس او کو مزید مضبوط و توانا کرنے کے بجائے موقع پرست پارلیمانی جماعتوں و دیگر نیشنلسٹ حلقوں کی موقع پرستی و جذباتی نعروں کے گرد نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زائل کیا جا رہا ہے۔ بی ایس او کی خودمختار حیثیت کو بحال رکھنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ نوجوان آزادانہ طور پر اس انقلابی ادارے کے ترقی پسند نظریات اور مزاحمتی جدوجہد کو زندہ رکھنے کی تحریک کو ممکن بنا سکیں۔ اسی ضرورت کے تحت بی ایس او کی خودمختار حیثیت کو بحال کیا گیا تاکہ بلوچ نوجوانوں کی علمی و شعوری تربیت کا سلسلہ جاری رہے۔ آج بی ایس او کا دوبارہ سے گراؤنڈ پر خودمختار و آزاد تنظیمی ماحول میں نوجوانوں کی تربیت کو ممکن بنانا بی ایس او کے نوجوانوں کی ناقابل مصالحت جدوجہد اور پختہ نظریات کے باعث ممکن ہو پائی ہے۔

بی ایس او چیئرمین کی طرف سے اسکول کا افتتاح کرنے کے بعد پہلا سیشن بین الاقوامی و قومی تناظر کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جسے مرکزی چیئرمین نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف سینئر وائس چیئرمین جیئند بلوچ نے دی۔ سیشن کا آغاز سرمایہ دارانہ نظام کے عہد میں سامراجی طاقتوں کے آپسی تضادات اور ان تضادات سے ابھرنے والی جنگوں، نئی بین الاقوامی صف بندیوں اور محکوم و محنت کش طبقوں کے خلاف سامراجی منصوبوں کے خلاف ابھرنے والی محنت کش، قومی و طلبہ تحریکوں کا طائرانہ جائزہ پیش کیا گیا۔ بین الاقوامی تناظر کے تسلسل میں پاکستان و بالخصوص بلوچستان کے سیاسی حالات کا تناظر رکھا گیا اور بلوچستان بھر بشمول مغربی و مشرقی بلوچستان میں اندرونی و بیرونی پراکسیز زیر بحث رہے۔

دوسرا سیشن بلوچ قومی سوال کے موضوع پر رہا جسے سیکرٹری اطلاعات فرید مینگل نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف مرکزی کمیٹی کے رکن وحید بلوچ نے دی۔ سیشن میں لفظ قوم کا تاریخی ارتقاء و مختلف ادوار میں معنی میں تبدیلیوں کو بیان کیا گیا۔ بعدازاں بلوچ سماج میں قوم کے تصور پر بات کرتے ہوئے قومی تشکیل کے عمل سے گزرنے کےلیے بلوچ سماج میں جدید و ترقی پسند سیاسی عمل کی سو سالہ تاریخ کا جائزہ پیش کیا گیا اور بلوچ قومی سوال کو اُس کی مجموعی حیثیت متحدہ بلوچستان سے جوڑ کے ایران اور پاکستان کی حاکمیت سمیت مکمل بلوچستان کی نجات کی جدوجہد زیر بحث آئی ۔ سیشن میں مختلف تنظیمی ساتھیوں نے کنٹریبوشن دیے اور مختلف سوالات کے جوابات دینے کے بعد سیشن اور اسکول کے پہلے روز کا باقاعدہ اختتام ہوا۔

نیشنل اسکول کے دوسرے روز کا پہلا سیشن سیاسی معاشیات کے موضوع پر رہا جسے چیٸر سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے کیا اور لیڈآف چیئرمین چنگیز بلوچ نے دی۔ سیاسی معاشیات کا تعارف کرتے ہوئے اس کے ارتقاء اور آج کی صورت حال پر بات رکھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف معاشیات دانوں کی تھیوریز کا بھی مختصراً جائزہ لیا گیا اور بلوچستان میں سیاسی و معاشی رشتوں پر بحث کو آگے بڑھایا گیا۔
سیشن میں مزید بلوچستان کی صورت حال اور دو صدیوں پر محیط سامراجی یلغار و قبضے پر اور تیسری دنیا میں جنگی معیشت کے ابھرنے پر تاریخی تناظر پیش کیا۔ فارمل معیشت کی کمی اور اس خلا میں ابھرنے والی سیاست کیسے بلوچ عوام کو متاثر کر رہی ہے اور اس کے ساتھ سامراجی جنگوں کا اکھاڑا بننے جارہی ہے جیسے سوالات ذیر بحث لاتے ہوئے بلوچستان کو ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی معاشیات کے موضوع پر متعدد سوالات آئے جن پر مباحث کے ساتھ متبادل معیشت کے قیام اور تنظیمی معاشی صورتحال پر سماجی انقلاب کےلیےسائنسی پروگرام و تنظیم کی اہمیت پر سیشن کو سمیٹا گیا۔

چوتھا سیشن جدلیاتی مادیت کا تھا جسے سیکرٹری اطلاعات فرید مینگل نے چیٸر کیا اور لیڈ آف مرکزی کمیٹی کے رکن حسیب بلوچ نے دی۔ سنگت فرید مینگل نے فلسفہ، فلسفے کی تاریخ، مادیت و عینیت پسندی کے نقطہ نظر اور ان کے ارتقاٸی سفر پر روشنی ڈالی جب کہ سنگت حسیب بلوچ نے جدلیاتی مادیت کی تشریح پیش کی اور بلوچ سماج کے اندر تضادات کو جدلیاتی مادیت کی کسوٹی پر رکھ کر تفصیلی بحث رکھا۔

نیشنل اسکول کا آخری سیشن تنظیم کے موضوع پر رہا جسے جونئیر جوائنٹ سیکریٹری شیرباز بلوچ نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف سیکریٹری جنرل اورنگریب بلوچ نے دی۔ سیشن میں انسانی سماج میں تنظیم کے عمل کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے مختلف دور و حالات میں سماج کی تعمیر و بقاء کےلیے تنظیم کی اہمیت و افادیت پر بحث کی گئی۔ بعدازاں جدید سامراجی دور میں انقلابی اداروں کی تشکیل و کردار پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا کہ تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے برخلاف محکوم و مظلوم قومیتوں نے مارکسی و لیننسٹ نظریات پر مبنی تنظیمیں تشکیل دیں۔ بی ایس او بھی انہی اصولی ڈھانچوں پر تشکیل پائی جو کہ نہ صرف بلوچ بلکہ دیگر محکوم قومیتوں کےلیے بھی طاقت و توانائی کا باعث بنی۔ مارکسی تناظر میں بلوچ سماج کا جائزہ لیتے ہوئے مضبوط لیننسٹ تنظیم کے قیام اور ممبران میں پروفیشنل انقلابی رویوں کو پروان چڑھانے کےلیے انقلابی نظریات سے لیس ہوکر کیڈر سازی و مضبوط تنظیمی ڈسپلن قائم رکھنے پر زور دیا گیا۔

سیشن کے آخر میں فائنانس رپورٹ پیش کی گئی اور بی ایس او کے انقلابی نعروں کے ساتھ دو روزہ اسکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔