بلوچستان کی پرانی حیثیت کو بحال کر کے برادرانہ تعلقات قائم کی جائیں۔ این ڈی پی

372

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا گیارواں مرکزی آرگنائزنگ باڈی اجلاس زیر صدارت شاہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ بمقام شال منعقد ہوا۔

اجلاس کی کاروائی قائم مقام ڈپٹی آرگنائزر نے سنبھالے، جس میں سیکرٹری رپورٹ، رپورٹ برائے متفرق کمیٹیاں، تنقیدی نشست، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال و آئندہ کا لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منت کی خاموشی سے کیا گیا۔

پہلے ایجنڈے میں قائم مقام ڈپٹی آرگنائزر نے سیکٹری رپورٹ پیش کر کے گزشتہ چار ماہ کے پارٹی کارکردگی کو آرگنائزنگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا. جبکہ دوسرے ایجنڈے میں مختلف کمیٹیوں نے اپنے رپورٹ پیش کئے اور تنقید برائے تعمیر میں مختلف رپورٹوں سمیت گزشتہ کارکردگی پر تعمیری تنقید کیا گیا۔

مخلف ایجنڈوں میں بحث کرتے ہوئے رہنماوں نے کہا کہ اس وقت مکمل طور پر معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے چونکہ ریاستی امور میں سیاست، معیشت لازم و ملزوم ہیں، اگر ان دونوں میں کوئی ایک بھی کمزور ہو جائے تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر آ جاتے ہیں اور ریاست کا توازن بگڑنا شروع ہو جاتاہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی و اقتصادی صورتحال دن بدن گھمبیر اور عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ آج اجتماعی طور پر ریاست کے اندر عوام “سرمایہ دار” اور ‘محنت کش” طبقوں کے درجہ بندی میں واضح طور پر تقسیم ہو چکے ہیں ۔ اس صورتحال میں سرمایہ داریت نے “جاگیرداریت” اور ” بیوروکریسی نظام ” کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ملکی سیاست پر اپنی بالادستی قائم کی ہوئی ہے، جبکہ محنت کش اکثریتی طبقے نے نظم و ضبط میں بے قاعدگی پیدا کر کے خود کو سرمایہ داریت کے زیر دست کر دیا ہے، جہاں معاشی اصلاحات کے مبہم پروگراموں کے ذریعے نام نہاد وفاق پرست مختلف سیاسی جماعتوں نے عوام کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ، جبکہ عوام کا لاشعور اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ فرعونیت میں تقسیم سرمایہ دار حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے سے لڑ مر رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ ریاستی معیشت کو پٹری پر اتارنے کے لئے پاکستان کے آرمی چیف کو غیر ملکی دوروں پر گارنٹی کے طور پر لیا جایا جا رہا ہے، اور ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی بدستور رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں جس پر ایشا کی ترقیاتی بینک نے پاکستان سے برآمدی اجناس میں مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ ورلڈ بینک نے بالخصوص بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے لئے روزگار، گھروں کی تعمیر اور ضروری خدمات کی فراہمی کے لئے اکیس کروڈ تیس لاکھ ڈالر حکومت پاکستان کو دیئے ۔ ماضی میں بھی 2013 کے سابقہ نواز حکومت میں سی پیک سے بلوچستان کو ملنے والے رقوم کو پنجاب (لاہور) کے اورنج ٹرین پراجیکٹ میں خرچ کئے گئے تھے، جس کے بعد چائنہ نے اعتبار ختم ہونے کے باعث رقم دینے سے انکار کیا تھا، لہذا ریاستی حکمرانوں سے یہ توقع کرنا فضول ہے کہ ورلڈ بینک کے فراہم کئے گئے رقوم کو بلوچستان کے سیلاب متاثرین پر خرچ کیا جائے گا، جس کی واضح مثال حالیہ ریکوڈک معائدہ ہے جسے خفیہ رکھ کر بلوچ وسائل کو بیرک گولڈ اور اینٹا گوفیسٹا نامی کمپنیوں کے حوالے کر دیئے گئے۔ چاغی میں ایٹمی دھماکوں کے بعد آج تک وہاں پر تابکاریوں کے سبب مہلک بیماریاں نمودار ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ قحط سالی کے وجہ سے زراعت اور مال بردار شعبہ مکمل تباہ ہو گیا، لیکن حکمرانوں نے آج تک ان علاقوں کا دورہ کر کے یہاں کے مظلوم عوام کی داد رسی کے لئے کوئی بنیادی سہولت تک فراہم نہ کیا، اس کے علاوہ چائنہ کے ایک “مینکور” کمپنی کو سیندک میں “کرومائیٹ” کے کانکنی کے لئے بے لگام چھوڑا گیا ہے، اور بیس سال مسلسل کان کنی کی وجہ سے پورے علاقے کا آب و ہوا تبدیل ہو چکا ہے۔ ڈیرہ بگٹی سوئی سے نکلنے والی گیس نے آج پنجاب کے صنعتی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے لیکن بلوچستان کے عوام کے لئے آج بھی یہ میسر نہیں ہے۔ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ ( 1894 ) کے کالے قانون کے ذریعے بلوچ قوم کو انکے پیدائشی سر زمین سے بیدخل کیا جا رہا ہے جس کی واضح مثال ٹھٹہ سمینٹ فیکٹری کو گڈانی میں پچاس ہزار ایکڑ زمین اور ڈیرہ غازی خان سمینٹ فیکٹری کو گڈانی میں بیس ہزار ایکڑ زمین لیز پر دے دیے گئے ہیں۔ یہی صورتحال لسبیلہ، گوادر، چاغی سمیت پورے بلوچستان کا ہے۔

رہنماوں نے کہا کہ جب ریاستی نظام غیر منصفانہ طرز پر چلایا جائے گا اور مظلوم و محکوم طبقے و اقوام کو مغلوب کر کے استعماریت قائم کی جائے گی، اور ظلم کے بنیاد پر جبر و تشدد کی پالیسی اختیار کی جائےگی تو یقینا َ اس استعماریت کے نظام کو زیادہ عرصہ نہیں چلایا جا سکتا اور خطہ بحرانوں، لاقانونیت اور انتشار کے چنگل میں پھنس جائےگا۔
صرف بلوچستان سے ایک ماہ کے اندر اکیس ارب روپے کا ریونیو حاصل کر کے ایف بی آر کے ذریعے وفاق کے سپرد کے دیا گیا ہے، بدقسمتی سے حاصل ہونے والی ادائگیوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور بلوچ ساحل وسائل کو بد ترین طریقے سے لوٹا جا رہا ہے اور ریاستی اقتصادی و سیاسی معاملات میں بلوچستان کے بنیادی مسائل کبھی بھی انتظامی بیروکریسی نے ایجنڈے میں سر فہرست لا کر بلوچ کو درپیش مشکلات کا ازالہ نہیں کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ واضح ہے کہ بلوچستان کو نوآبادیات طرز پر چلایا جا رہا ہے اور واقعتاَ اگر بلوچستان ریاست کے لئے اضافی بوجھ ہے تو بلوچستان کی پرانی حیثیت کو بحال کر کے برادرانہ تعلقات قائم کی جائیں تا کہ دونوں جانب رہنے والے اقوام خوشحال رہیں اور اس میں کسی کو قباحت نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سابقہ سویت یونین پر اقوام کا بوجھ بڑھ گیا تو اس نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کر کے اپنے اندر سے سولہ ریاستیں تشکیل دے کر سابقہ روس کے حدود کو بحال کر دیا تھا۔

رہنماوں نے عالمی سیاست پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جیسی یک قطبی طاقت بھی دیوالیے پن کی طرف بڑھتی جا رہی ہے ، امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ بیان کے مطابق اگر قرض نہ لیا گیا تو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی اور امریکہ اپنے اخراجات کی ادائیگی کے قابل نہیں رہےگا۔ جس پر امریکہ کی دونوں جماعتیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ آپس میں معاہدہ کے کے اس بحران پر قابو پانے کے کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف روس، یوکرین کی لڑائی کے اثرات عالمی معیشت پر گہرے نقش چھوڑ رہا ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارے کے سربراہ کو بھی یہ کہنا پڑ گیا کہ عالمی معیشت ایک دفعہ پھر تقسیم کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ ترکیہ میں طیب اردگان کا تیسری بار صدر منتخب ہونا بھی آئندہ آنے والے دنوں میں کرد اور علوی اقلیتوں کو بحرانی کیفیت میں دکھیل کر خطے کے اندر مزید عدم توازن پیدا کر دے گا۔ ایران و سعودی عرب کے سفارتی تعلقات مشرق وسطی اور خلیج ممالک کے مابین موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں ایک خوش آئندہ کردار ادا کرےگا اور ممکن ہے کہ مسلمان ریاستوں میں موجودہ انتشار کو کم کرنے میں اس پورے خطے پر دورس مثبت نتائج نکل آئیں، آخر میں چائنہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اس اونٹ کی مانند ہے جو کسی بھی جانب کروٹ بدل سکتی ہے لہذا عالمی معیشت جہاں عدم توازن کا شکار ہو رہا ہے وہیں عالمی سطح پر غربت ، بدامنی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔
آخری ایجنڈے میں ڈپٹی آرگنائزر کی خالی نشست پر آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر سلمان بلوچ کو منتخب کیا گیا جبکہ مسلسل پانچ اجلاسوں میں غیر حاضر ہونے کی صورت میں آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر ابراہیم بلوچ کو عہدے سے معطل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تنظیمی امور کے حوالے سے مختلف فیصلے لئے گئے۔