شمالی کوسووو میں جھڑپوں میں نیٹو کے 30 اہلکار زخمی

286

کوسووو میں نیٹو کے زیرقیادت مشن میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے تعینات 30 سے زائد فوجی پیر کو سرب مظاہرین کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں زخمی ہو گئے۔

 مظاہرین حال ہی میں منتخب ہونے والے البانیائی میئرز کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بلقان ریاست میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیٹو کوسووو فورس (کے ایف او آر) نے کہا کہ اسے مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے دوران ’بلااشتعال حملوں ‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور انہوں نے زیویکین کے شمالی قصبے میں سرکاری عمارت کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔

سربیا کے صدر الیگساندر ووچچ نے کہا کہ 52 سرب شہری زخمی ہوئے جن میں سے تین کی حالت تشویشناک ہے جب کہ ایک سرب شہری کو’(نسلی) البانوی سپیشل فورسز کی طرف چلائی گئی دو گولیوں کے زخم آئے۔‘

ہنگری کے وزیر دفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر کہا کہ ’ہنگری کے 20 سے زیادہ فوجی‘ زخمیوں میں شامل ہیں جن میں سے سات کی حالت تشویشناک ہے لیکن وہ خطرے سے باہر ہیں۔

اٹلی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے تین فوجی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ’تمام فریقین سے تناؤ کم کرنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنے‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی۔

کوسووو میں مقیم سرب باشندوں نے شمالی قصبوں میں گذشتہ ماہ ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جن میں ووٹروں کے 3.5 فیصد سے کم ٹرن آؤٹ کے باوجود نسلی البانویوں کو مقامی کونسلوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔

کوسووو کے وزیر اعظم البن کورتی کی حکومت نے گذشتہ ہفتے باضابطہ طور پر میئرز تعینات کیے۔ اس ضمن میں انہوں نے یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے کشیدگی کو کم کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ دونوں ملکوں نے 2008 میں کوسوسو کی سربیا سے  آزادی کی حمایت کی تھی۔

متعدد سرب کوسووو کی پولیس فورسز کے انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کی شمالی کوسووو میں موجودگی نے طویل عرصے سے جاری مزاحمت کو جنم دیا۔ سرب البانوی میئروں کو بھی وہ اپنا حقیقی نمائندہ تسلیم نہیں کرتے۔

فریکچرز اور آگ سے لگنے والے زخم

موقعے پر موجود اے ایف پی کے صحافی کے مطابق پیر کی صبح  سربوں کے گروپوں کی سرب اکثریتی زیویکین میں میونسپل عمارت کے سامنے کوسووو کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ مظاہرین نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے آنسو گیس استعمال کی۔

اے ایف پی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ کے ایف او آر  مشن میں نیٹو کی زیرقیادت امن دستوں نے پہلے مظاہرین کو پولیس سے دور ہٹانے کرنے کی کوشش کی تاہم بعد میں اورشیلڈز لاٹھیوں کا استعمال کرتے ہوئے ہجوم کو منتشر کرنا شروع کر دیا۔

متعدد مظاہرین نے جواب میں فوجیوں پر پتھر، بوتلیں اور پیٹرول بم پھینکے۔ تاہم فوجیوں نے مظاہرین کو فوری طور پر زیویکین کی میونسپل عمارت سے چند سو میٹر دور ہٹا دیا۔

نیٹو فورس نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہجوم کے سب سے زیادہ فعال لوگوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اطالوی اور ہنگری کے کے ایف او آر دستے کے کئی فوجی بلااشتعال حملوں کا نشانہ بنے اور آگ لگانے والے آلات کے نتیجے میں وہ جھلس گئے اور ان کی ہڈیاں ٹوٹیں۔‘

اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تجانی نے کہا کہ اٹلی کے تین فوجیوں کی حالت نازک ہے۔

اطالوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم مزید کے ایف او آر پر مزید حملے برداشت نہیں کریں گے۔ کوسوسو حکام کی طرف سے مزید یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنا ضروری ہے اور تمام فریق کشیدگی کو کم کرنے کے ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ ‘

نیٹو نے کے ایف او آر کے فوجیوں پر ’ بلا اشتعال ‘ کی شدید مذمت کی ہے اور مزید کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں ’مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔‘

نیٹو نے ایک بیان میں کہا کہ ’تشدد فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو کشیدگی کو مزید ہوا دیں اور بات چیت میں شامل ہوں۔‘

کے ایف او آر کے کمانڈر ڈویژن جنرل اینجلو مائیکل ریستوکیا نے ’ناقابل قبول‘حملوں کی مذمت کی اور زور دیا کہ کے ایف او آر غیرجانبداری سے اپنا کام جاری رکھے گا۔