تاریخ میں بلوچ عورتوں کا کردار ۔ اویس احمد بلوچ

650

تاریخ میں بلوچ عورتوں کا کردار

تحریر: اویس احمد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی سماجی اور معاشرتی ترقی کیلئے عورتیں اہم کردار کرتی ہیں۔ کسی سماج اور معاشرے کی تہزیب اور اقدار کا اندازہ اس زاویے سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں رہنے والے عورت کو کیا تصور کیا جاتا ہے۔ اُن سے کیسا رویہ رکھا جاتا ہے، اُن کی عزت و تکریم کیسے کی جاتی ہے۔ اُن کے لیے کونسی پیمائش اور اصول بنائے جاتے ہیں جو وہاں کے مرد حضرات کیلئے اصول و معیار تعین کئے گئے ہیں، کیا اُنہیں انسان سمجھ کر اُن کے دکھ و درد کا احساس کیا جاتا ہے کہ نہیں۔ یا پھر انہیں صرف عزت و غیرت کا معمار سمجھا جاتا ہے جس سے مَرد حضرات بزات خود بَری اور با اختیار ہیں۔ ماضی میں جتنے بھی اقوام گزرے ہیں ان میں سندھی، پھٹان، پنجابی یا دیگر اقوام ان سب کی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھی جائے تو ان میں عورت کی کردار محدود تھی، حتیٰ کہ عرب کی تاریخ میں عورت کی کردار بہت محدود تھی، عرب اس حد تک جاہل تھے کہ جب کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوتی تو انہیں زندہ دفن کیا کرتے تھے، لیکن اس دور جاہلیت میں بھی ایک ایسا قوم موجود تھا کہ جس میں عورت کو مرد کے برابر سمجھا جاتا تھا اور اُس کے حق و حقوق کی حفاظت مردوں سے زیادہ کی جاتی تھی۔

عورتوں کی عزت و آبرو اتنی زیادہ تھی کہ دو قبائل میں جاری خون ریز لڑائی کے دوران اگر عورت درمیان میں آجاتی تو وہ عورت کی عزت اور تکریم کا احترام کرتے ہوئے جاری لڑائی اور جنگ کو روک دیئے جاتے تھے۔ حتی کے عورت کا کسی فریق کے گھر پر دستک دینے سے خونی معاملات حل ہوجاتے تھے اور آپس میں صلح کرکے ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کاروائی کو ترک کردیئے جاتے تھے، وہ تہزیب یافتہ قوم بلوچ ہی تھی جن میں عورت کی عزت سب سے زیادہ کی جاتی تھی۔

بلوچ قومی تاریخ میں بلوچ عورتوں کا بہت اہم کردار رہی ہے۔ دیگر اقوام کے ساتھ جاری لڑائی میں بلوچ عورتوں نے اول صفحے کا کردار ادا کرکے فوج کی کمانڈ سمبھالی ہیں، اور جنگ میں فتح حاصل کرکے ریاستوں کو شکست سے دوچار کرکے انہیں اپنی کنٹرول میں لی ہیں۔

بلوچ نے کبھی عورت کی حکمرانی کے بارے مخاصمانہ اور غیرمساویانہ رویہ نہیں اپنایا، قلات بیلہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں ماضی کی تاریخ میں ایسی متعدد شواہد ملتے ہیں جہاں عورتوں نے حکمرانی کی اور اپنے دربار لگائے، انتظامیہ چلائی، اور جنگ کے میدان میں فوجوں کی قیادت بھی کی۔

تاریخ میں بلوچ معاشرے میں عورتوں نے دلیر اور بہادری کے کارنامے سر انجام دیئے، جن میں بانڑی، سمی، حلیمہ، سَدو، ہانی جیسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جنہوں نے سماج میں آمریت اور سامراجی ریاستوں کے ساتھ جنگ کرنے میں اپنے مَرد حضرات کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دشمن کا دیدہ دلیری کے ساتھ مقابلہ کیں۔ مورخوں کے تحاریر میں داد شاہ کے بہن سمیت دیگر کئی ایسی مثالیں آپ کو پڑھنے میں ملتی ہیں۔

آج کے اس جدید دور میں بھی بلوچ عورتیں پیش پیش ہیں، جن میں شہید لمہ وطن بانک کریمہ بلوچ بلوچ قومی جدوجہد میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دنیا کو یہ یقین دلا کر باور کرایا کہ بلوچ عورتیں مردوں سے کم نہیں۔ شہید لمہ وطن کی بے بہا قربانیوں اور انتھک جدوجہد کے سبب انہیں بلوچ قوم نے “لمہ وطن ” کی خطاب دی، آج بھی انکی نام بلوچ قوم سمیت دیگر محکوم اقوام کے اندر ایک مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہے، یقیناََ انکی لازوال قربانیاں اور عظیم کردار اس سے زیادہ عزت ور تکریم کے مستحق ہیں۔

آج ظالم اور مظلوم کے درمیان جاری حق و باطل کی جنگ میں جب ایسی شخصیات شہید ہو کر تاریخ رقم کرتی ہیں تو ان تاریخی کرداروں کے بارے میں اکثر لکھا اور بولا جاتا ہے کہ شہید کی موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

شہید لمہ وطن بانک کریمہ کی عظیم کردار موجودہ اور آنے والے نسل کیلئے ایک انقلابی کتاب کی مانند ہے جو ہر دور میں عوام کو جدوجہد کرنے اور ظالم کے خلاف دیدہ دلیری کے ساتھ جنگ کرنے پر درس دے کر آمادہ کرتی ہے۔ بانک کی لازوال قربانیوں اور جدوجہد کے اثرات صدیوں تک محیط ہوکر اور محکوم اور مظلوم قوم کیلئے مشعل راہ ثابت ہونگے۔

ایک کالونائیزر اپنی تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیشہ من گھڑت دلائل پیش کرکے نام نہاد مزہبی اسکالر کے زریعے عورتوں کی حکمرانی کو نحوست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں زندگی کے ہر شعبوں سے محروم رکھی جاتی ہے، لیکن شہید لمہ وطن بانک کریمہ نے ان تمام جھوٹ، فریب اور سامراجی ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کو غلط ثابت کرکے اس غلام سماج میں جدوجہد کی تاریخ رقم کی۔

شہید لمہ وطن نے ادارہ جاتی بنیاد پر جدوجہد کرکے بلوچ خواتین کو بلوچ قومی جدوجہد میں شامل کی، اس کٹھن اور نازک دور کے اندر بلوچ عورتوں میں قومی شعور بیدار کرکے انہیں جدوجہد کے ساتھ منسلک کی۔

بلوچ قومی تحریک کو منظم اور مستحکم بنانے اور کامیابی سے دوچار کرنے کیلئے بلوچ خواتین کو سیاسی اور سماجی حقوق دے کر انہیں قومی تحریک میں جدوجہد جاری رکھنے کے مواقع فراہم کرنی چاہئے تاکہ مستقبل میں قومی تحریک کو مزید قوت اور توانائی فراہم کرنے کیلئے جہد مسلسل کو جاری کرکے منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کئے جاسکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں