امریکی ٹیلی وژن فاکس نیوز کی ایک رپورٹ میں پنٹاگان کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی تازہ فوجی مہم جوئی سے امریکیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ڈائریکٹر آف دی پنٹاگان جوائنٹ سٹاف، میرین لیفٹیننٹ جنرل کینتھ مک کینزی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا کہ پنٹاگان افغانستان میں فرنٹ لائن کے قریب تعیناتی کے لیے اپنے مزید فوجی دستے بھیج رہا ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے خطرات منسلک ہیں۔
ان کے بقول افغانستان میں امریکی خطرے میں ہیں اور بدقسمتی سے اس مہم کے نتیجے میں امریکیوں کی ہلاکتیں جاری رہیں گی۔
طالبان کے خطرے کے مقابلے کے لیے امریکہ اپریل تک اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجے گا جس سے اس ملک میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 15 ہزار ہو جائے گی۔
پچھلے ہفتے کے دوران امریکی ایئر فورس نے امریکی اور افغان فوجی دستوں کی مدد کے لیے ایک درجن اے ٹین تھنڈر بولٹ طیارے وہاں بھیجے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ مزید ڈرون اور جاسوسي اور امدادی سرگرمیوں میں مدد دینے والے ہیلی کاپٹر بھی افغانستان بھیج رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نائین الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد طالبان کے خلاف نمایاں کامیابیوں کے لیے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔
افغانستان میں اس وقت امریکی فوجی 84 سو کے لگ بھگ ہیں اور اندازہ کیا جا رہا ہے کہ اس سام موسم بہار تک یہ تعداد بڑھ کر 15 ہزار تک پہنچ جائے گی۔
امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ سن 2017 میں 2012 کے مقابلے میں فضائی حملوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے ناگزیر ہے۔
لیکن موجودہ اضافےکے باوجود افغانستان میں 2010 کے مقابلے میں فوجیوں کی تعداد نمایاں طور پر کم رہے گی جو اس وقت ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
جنرل مک کینزی کہتے ہیں کہ فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود موجودہ مہم ماضی سے مختلف ہے کیونکہ اب زمین پر یہ جنگ افغان فوجی لڑیں گے۔