بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں فوج کی تعیناتی کے پاکستانی ریاست کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پہلے سے ہی لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات ہے۔ بلوچستان کے ہر دوسرے علاقے میں ایک فوجی کیمپ جبکہ درجنوں چوکیاں جبکہ کچھ شہروں میں درجنوں کیمپس موجود ہیں۔ بلوچستان کا پورا مکران ریجن، خضدار، آواران، مشکے، کولواہ، گوادر و ساحلی علاقے، کوہلو، کاہان، بولان، ڈیرہ بگٹی، قلات، وڈھ، منگچر سمیت اکثر علاقے اس وقت فوجی معاصرے میں ہیں جبکہ مزید فوجی تعیناتی کا مطلب بلوچستان میں جاری نسل کشی، قتل و غارت اور انسانیت سوز مظالم میں اضافہ کرنا ہے جس پر انسانی حقوق کے اداروں کو آواز اٹھانا چاہیے۔ بلوچستان میں قابض فورسز ہر طرح کے ظلم و زیادتی میں ملوث ہے اور آنے والے دنوں میں جاری بربریت میں اضافہ کا خدشہ موجود ہے۔
ترجمان نے کہا کہ حالیہ دنوں ریاست کے اندر پیدا ہونے والے سیاسی حالات کا فائدہ اٹھا کر قابض فورسز اپنے بندوقوں کا نوک ایک بار پھر بلوچستان کی طرف کرنا چاہتے ہیں، بلوچستان پر مکمل قبضے کا فائدہ اٹھا کر یہاں جاری نسل کشی کو مزید تیز کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس نسل کشی اور فوجی قبضے کو مزید مستحکم و مربوط بنانے کیلئے کچھ نام نہاد قوم پرست جماعتیں بلوچ قوم پرستی کی سیاست کا لبادہ اوڑھ کر اقتدار کی خاطر قبضہ گیر کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔ جس میجر جنرل فیصل نصیر کو خوش کرنے کیلئے ان کے حق میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی جا رہی ہے یہی جنرل بلوچستان میں سینکڑوں سیاسی کارکنان کی شہادت اور ہزاروں فوجی آپریشن کا زمہ دار ہے لیکن بدقسمتی سے محض اقتدار سے جڑے رہنے کیلئے متعلقہ جماعتوں کی جانب سے فوج کے حق میں نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ ان کی قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان جیسے حرکتوں کی وجہ سے شاید وہ وقتی فائدے حاصل کر سکیں لیکن تاریخ کے اوراق میں وہ بطور قابض کے مقامی معاون یاد رکھے جائیں گے۔
ترجمان نے انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اس وقت مکمل طور پر فوجی محاصرے میں ہے اور آئے دن یہاں سے لوگوں کو غائب کرکے بعدازاں ان کی مسخ شدہ لاشیں اور انہیں فیک انکاؤنٹرز میں نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم انسانی حقوق کے اداروں کو دیکھائی نہیں دیتے۔ ریاست کی جانب سے بلوچستان میں فوج کی تعیناتی کا مطلب اب ہر گھر کے سامنے ایک چوکی قائم کیا جائے گا اس پر عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہیے۔