بلوچستان کی مائیں اپنے لاپتہ لخت جگر کی راہیں تک رہی ہیں ۔ پاکستان بار کونسل

353

پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید، حسن رضا پاشا، امان اللہ کاکڑ، یاسین آزاد، امان اللہ کنرانی، قاسم گاجزئی، راحب بلیدی سمیت دیگر وکلانے کہا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی و عدالتی بحران ختم کرنے کے لیے فوری طور پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیاجائے، وکلا آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے متحد ہیں، اداروں کی ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے غیر جمہوری قوتیں فائد اٹھائیں گئی اس لیے حالات کا تقاضا ہے کہ قبل از وقت اقدامات اٹھائے جائیں عدلیہ کی تقسیم سے ملکی ادارے کمزور ہورہے ہیں۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے ہفتے کو بلوچستان ہائیکورٹ میں بلوچستان بار کونسل کے زیراہتمام’’ آئین کی بالادستی ،پارلیمنٹ کی سپر میسی،اور عوام کی حقیقی حکمرانی‘‘ کے عنوان سے آل پاکستان وکلا کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کنویشن میں بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے آنے والے وکلا تنظیموں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔

کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے صدر عابد زبیری چیئرمین پاکستان بار کونسل حسن رضاپاشا،سپریم کورٹ بار کے سابق صدوریاسین آزاد،امان اللہ کنرانی،احسن بھون،کامران مرتضی،سید قلب حسن شاہ، سابق چیئر مین پاکستان بار کونسل امجد شاہ چیئرمین پنجاب بار کونسل بشارت اللہ،وائس چیئرمین خیبر پختوانخوا زر بادشاہ ،سپریم کورٹ بار کونسل سنیئر نائب صدر یوسف مغل بلوچستان ہائیکورٹ بار کے سابق صدر عبدالمجید کاکڑ سمیت دیگر نے کہاکہ عدلیہ کی تقسیم سے ملکی ادارے کمزور ہورہے ہیں وکلا کا متفقہ مطالبہ تھا کہ انتخابات کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیاجائے وکلا عدلیہ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر جدوجہد کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ذاتی مفادات کے لیے کام کیا جس کی وجہ سے آج عدلیہ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں یہ تاثر دیاجارہاہے کہ چار ججز سپریم کورٹ کو چلا رہے ہیں وکلا اپنے ادارے کو غیر جانبدار رکھنا چاہتے ہیں دستور پاکستان کے کے تقدس کا خیال رکھاجائے ملک کے عوام کو کبھی حقیقی حکمرانی نصیب ہی نہیں ہوئی بلوچستان کی مائیں آج بھی اپنے لاپتہ لخت جگر کی راہیں تک رہی ہیں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر ریفرنس کی واپسی کا خیرمقدم کرتے ہیں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کا منظم طریقہ کار وضع کیاجائے ریٹائرڈ،ججز ،جرنیلوںاور بیورکریٹس کی محکموں میں دوبارہ تعیناتی کا قانون منظور کیاجائے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو ملک میں موجودہ سیاسی و آئینی بحران کی ذمہ دار عدلیہ ہے چند افراد کے ذاتی مفادات کے لیے سب کچھ ہورہا ہے ملک میں جب بھی بحران آیا وکلاء متحد ہوئے ، اگر 1970میں عوام کی حکمرانی کے طور پر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت نہیں دی گئی حالانکہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت دی جاتی تو پاکستان دولخت نہ ہوتا پارلیمنٹ میں پہلی بار بالادستی قائم رکھنے کیلئے فیصلہ کیا ہے عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو ترجیح دی اکثریتی پارلیمنٹ نے جنرل باجوہ کو توسیع دی ، اس موقع پر معلوم ہوا طاقتور کون ہے آرٹیکل 63 کے تحت پنجاب کا معاملہ سپریم کورٹ گیا تو چیف جسٹس سے فل بینچ بنانے کی درخواست کی آرٹیکل 63سے متعلق فیصلے نے آئینی بحران پیدا کیا، جس کی ذمہ دار سپریم کورٹ ہے ، الیکشن کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے سپریم کورٹ کی نہیں کیونکہ آئین میں تمام اداروں کی ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے، جب ادارے ایک دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت کرینگے تو آئینی بحران پیدا ہوگا، وزیراعلیٰ پنجاب اعتماد کاووٹ لیتا ہے اور دوسرے روز ایک شخص کی خواہش پر اسمبلی تحلیل کر دی جاتی ہے کے پی کے کی اسمبلی بھی تحلیل ہوتی ہے وہاں پر انتخابات کی کوئی بات نہیں کرتا وکلاء برادری جو فیصلے کریگی ہم ساتھ ہیں سپریم کورٹ کے ججز تقسیم ہیں، اور وہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی بات کرتے ہیںاور سپریم کورٹ کے 15ججز مل بیٹھ کر معاملات حل نہیں کر پا رہے تو سیاست دان کیسے کریں گے سیاستدان اپنے معاملات عدالت میں مت لیجائیں پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے، عدلیہ کی آزادی آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں پارلیمنٹ کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس لئے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا جارہا ہم نے 23سال حقوق کیلئے جد و جہد کی ہے نظام کو بچانے کیلئے لائے گئے قانون کا استقبال ہونا چاہئے ذاتی انا کو آئین پر فوقیت نہیں ملنی چاہئے ہمارا جمہوری نظام خطرے میں غیر جمہوری قوتوں کیلئے عدلیہ ٹول کا کام کر رہی ہے، وکلاء کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا ر ہی ہے 90روز میں الیکشن کی بات کرنے والے غیر آئینی طور پر اسمبلی توڑنے پر خاموش کیوں ہیں، آئین شکنی پر عمران خان قاسم سوری اور دیگر کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے، پارلیمان اور آئین کو بنے ہوئے 50سال جبکہ پاکستان کو بنے 75سال ہو گئے پارلیمنٹ بھی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ خون بلوچستان میں بہہ رہا ہے، عدالتوں نے دو وزرائے اعظم کو سیاسی طور پر نااہل کیا، پارلیمان سے منظور ہونے والے قانون کے نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل حکم امتناعی کا پہلا واقعہ ہے، حلف لیکر آنے والوں نے اسکی خلاف ورزی کی ہے، کنوینشن کے اختتام پر اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔