چین نے گوادر سے کاشغر تک ریلوے لائن منصوبہ پیش کردیا

553

چین نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبےکے تحت گوادر سے کاشغر تک 58 ارب ڈالرکا ریلوے لائن کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ پیش کردیا۔

چینی خبر رساں ادارے کے مطابق چائنا ریلوے فرسٹ سروے اینڈ ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ گروپ کے ماہرین نے فزیبلٹی کا جائزہ لیکر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرلی ہے جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے۔

فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق مجوزہ منصوبہ تجارت اور جیو پولیٹکس کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، ریل لنک قدیم سلک روڈ کنکشن کو بحال کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق ریل لنک مغربی تسلط والے راستوں پر انحصار کم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

اس حوالے سے چینی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگےترین منصوبے پر 58 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی، 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا۔

واضح رہے چین گوادر بندر گاہ تک پہنچے کے لئے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت 21 پراجیکٹس پر کام کررہا ہے جن کی کُل تعداد کے حوالے سے پاکستانی حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان منصوبوں پر لگنے والی رقم 49 ارب ڈالر ہے۔

اس سے پہلے متعدد بار یہ رقم 62 ارب بتائی گئی تھی لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں میں چینی شہریوں اور بلوچستان میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی جانب سے حملوں کے بعد سی پیک پر کام کی رفتار پہلے سے قدرے کم بتائی جا رہی ہے جس کے بعد حکومت نے وضاحت کی کہ یہ رقم اب 49 ارب ڈالر ہے۔

اس حوالے سے سی پیک سے جڑے ایک ترجمان نے برطانوی عالمی خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ سی پیک منصوبوں پر حملوں کے بعد چین نے ان منصوبوں پر کام کرنے والے اپنے شہریوں کی تعداد کم کردی ہے سیکورٹی خدشات کے بنیاد پر خاص طور سے ان چینی شہریوں کو واپس ملک بلایا گیا ہے جو سی پیک منصوبے سے جُڑے ہیں جس کے بعد سی پیک پر کام کی رفتار قدرے کم ہوگئی ہے-

یاد رہے پاکستان میں جاری سی پیک منصوبوں پر بلوچستان سمیت کراچی میں مہلک حملے اور ان منصوبوں سے منسلک چینی شہریوں کو نشانہ بنانے میں بلوچ لبریشن آرمی شامل رہا ہے۔ ایک سال قبل ہی بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی ایک خاتون خودکش حملہ آور نے کراچی میں سی پیک سے منسلک کنفویشس انسٹیٹیوٹ اور کمیونسٹ پارٹی کے تین ارکان کو حملے میں نشانہ بنایا تھا-

اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تنظیم نے بیان جاری کیا تھا کہ چینی معاشی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کو توسیع دینے کی ایک علامت کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے کراچی برانچ کے ڈاریکٹر کو نشانہ بنانے کا مقصد چین کو یہ واضح پیغام دینا تھا کہ بلوچستان پر چین کے بلواستہ یا بلاواستہ تسلط کو ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔

اس بیان میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے دھمکی دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چین کو ایک بار پھر یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے استحصالی منصوبے اور قابض کی معاونت بند کردے، بصورت دیگر ہمارے اگلے حملے کئی گنا زیادہ شدید تر ہونگے۔

بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے متعدد بار مہلک حملوں کا نشانہ بننے کے بعد چین نے پاکستان حکومت سے اپنے شہریوں اور سی پیک پر کام کرنے والے انجینئرز کو خود حفاظت فراہم کرنے کے لئے چینی سیکورٹی یونٹس کو پاکستان میں کام تعیناتی پر زور دے رہا ہے تاہم پاکستانی حکومت کی جانب سے چین کے اس مطالبے پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آسکا ہے-