سکول میں مستقبل پسماندہ ۔ گمنام بلوچ

257

سکول میں مستقبل پسماندہ

تحریر: گمنام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی پسماندگی دن بہ دن عروج پر پہنچتا جارہا لیکن دوسری طرف بلوچ طلباء کئی پلیٹ فارموں پر وہ حقیقی علم حاصل کرنے میں لگے ہیں، جو انکو صحیح اور غلط کے درمیاں فرق نہیں بلکہ اپنے علاقوں میں نوآبادیاتی زندگی کو کاؤنٹر کرنے کے حل تک تلاش کرچکے ہیں۔

ہر طرح سے ہر دور میں بلوچ طلباء سرگرم رہے، چاہے وہ انجمن اتحاد بلوچاں ہو یا بلوچستان سٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہو ہر طرح اور ہر کریکٹر سے صف اول میں رہے۔

اسی تعلیمی سلسلے میں گزشتہ روز فیس بک پر خاران کے نواحی علاقہ لجے جو پتکن تحصیل کا حصہ ہے اور شہر سے جنوبی مشرق کی طرف واقع ہے جو خاران شہر سے تقریبا 60 یا 65 کلومیٹر دور ہے۔

جس کے حوالے سے ایک پوسٹ پڑھا تو بہت دلی تمنا ہوئی کہ لجے کا بھی چکر لگاؤں اور وہاں کے عوام اور طلباء کے شعور کی سطح دیکھوں کہ ایسے باکردار لوگ جو خاران کے شہر میں بہت کم ملنے کو ملتے ہیں، سوچا لجے تو بھرا پڑا ہوگا لیکن دکھ تب ہوا جب کچھ گہرائی سے دیکھا تو نوجوانوں کے سوچ کو محدود رکھے ہوئے انکے سامنے جو شعور اور تعلیم رکھا جارہا ہے وہ صرف پارلیمانی سیاست ہے کچھ انا پرست اساتذہ اور اسکے ساتھ ڈاکٹر اسحاق نامی پارلیمانی سیاستدان جو طلباء کو بلوچ سیاست کی بجائے انکو اس سیاست سے جوڑ رہے ہیں جس سے 1977 کے بعد بابا خیر بخش مری نے بلوچ قوم کو دور رہنے کا کہا اور آج تک بلوچ اس سیاست سے اپنے آپکو کنارہ کرچکے ہیں۔

خاران کے پسماندہ علاقہ لجے جو خاران میں نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں مشہور ہے لیکن ڈاکٹر اسحاق کچھ اپنے چمچے اساتذہ کے ساتھ ملکر لجے کے کچھ طلباء کو اندھیروں میں نہیں بلکہ پورے بلوچ قوم کے مستقبل کو اندھیرے میں ڈال رہے ہیں۔ جس علاقہ کی وجہ پورے خاران کا سر فخر سے اوپر ہے آج اسی خاران میں حقیقی علم اور طلباء کے سوچنے کا صلاحیت آسمان کو چھو گیا ہے لیکن لجے آج بھی حقیقی علم کے حوالے سے زمین کے اندر دلدل میں پسا ہوا ہے اور لجے کے علاقے میں موجود ایک گرلز سکول جو کئی سال سے بند پڑا ہے جس میں طلباء کے اندر بانڑی بلوچ لمہ وطن کریمہ بلوچ اور ڈاکٹر مہرنگ جیسی خلوص اور جزبہ ہے جو اپنے بلوچیت شناخت اور زبان کے پروموشن کیلئے شوق سے پڑھنے آتے ہیں لیکن وہاں کے بھی استاد اسی ڈاکٹر اسحاق کے بندے ہیں، اسکے اپنے فیملی سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے مرضی سے خاران اور کویٹہ میں بیٹھ کہ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور وہاں چھوٹی بچیوں کو گھر کے چار دیواری میں بند کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔

وہاں موجود ہیڈ ماسٹر بوائز سکول کے اس مسئلے کو ڈاکٹر اسحاق کے کہنے پہ( D E O) کو کئی بار ایک دعوت پر راضی کرکے مسئلے کوخاموشی سے درہم برہم کر تا ہے اور لجے کے عوام کو اس کے بدلے میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اسی طرح سوچے سمجھے سازش کے تحت لجے کے طلباء کو لاشعوری میں رکھ کر اپنے نام کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس گناہ عظیم میں ڈاکٹر اسحاق کے ساتھ ساتھ ایم پی اے خاران ثناہ بلوچ بھی شامل ہے جو ہر بار کسی کے میر معتبر کے کہنے پہ نہ کوئی نوٹس لیتا ہے اور نہ لجے کے سکول اور مستقبل کو سدھارنے کی کوشش کرتا ہے لجے کے کچھ مخصوص نوجوان ثنا تک مسئلے کو پہنچا چکے ہیں لیکن وہ اسمبلی میں جس طرح چالاکی کرکے بلوچ قوم کو دھوکہ دیتا آ رہا ہے اسی طرح لجے کے نوجواں بھی اسکے دھوکے کا شکار ہو گئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں