بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچ نسل کشی میں تیزی لانے کیلئے ریاستی فورسز روز بہ روز فوجی آپریشنوں میں تیزی لا رہے ہیں۔ ہر نئے سال یا نئے اقتدار کے بعد بلوچ قوم کے خلاف جبر و استبداد کی نئی مثالیں قائم کی جاتی ہیں۔ فوجی آپریشنوں کا حالیہ فیز جو نیشنل پارٹی، مسلم لیگ، بی این پی اور دیگر وفاق پرست جماعتوں کی ایما پر شروع اور تیز تر کیا گیا ہے، بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ نئے سال کیلئے بلوچ قوم کو پیغام ہے کہ وہ ماضی سے بدترین دہشت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔ ڈاکٹر مالک کا سوات طرز آپریشن، سرفراز بگٹی کی نسل کشی کی دھمکی اور قدوس بزنجو کا بلوچ آزادی پسندوں کو کرش کرنے کا اعلان اپنی کرسی و مراعات کی حفاظت اوراپنے آقا کو خوش کرنے کی پالیسی ہے۔ دوسری طرف انہی باتوں کے بعد قابض فوج آپریشن، اغوا اور قتل میں تیزی لاتی ہے۔بلوچستان میں نسل کشی جاری ہے۔
آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ راگئے اور مشکے سے خواتین اور بچوں کا اغوا، گچک اور کولواہ میں فضائی شیلنگ، دشت سے لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کرنا، ساہیجی کا محاصرہ اور گرد و نواح میں نئے کیمپوں کی تعمیر، کالج اور اسکولوں پر فوجی قبضہ بھی انہی عناصر کی ایما پر کیا گیا ہے تاکہ آنے والی انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جاسکے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح اس دفعہ بھی بلوچ قوم انتخابات کا بائیکاٹ اور آزادی پسندوں کی حمایت کرکے پاکستان سے نجات اور قبضہ کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بھی انہی ناکام انتخابات کی پیداوار ہے جس میں ایک فیصد ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہوئے مگر آئی ایس آئی کی مہربانی اور بلوچ نسل کشی میں معاونت پر انہیں اسپیکر، قائم مقام گورنر اور اب وزیراعلیٰ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی تقرری سے ضلع آواران میں آزادی پسندوں کے خلاف سخت کارروائی اور بہتر نتائج کی توقع رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ بلوچ قومی تحریک پورے بلوچستان میں شعوری طور ہر بلوچ کے ذہن میں نقش ہے اور وہ آزادی کی جد و جہد کا عملی طور پر حصہ ہیں۔ اور بلوچ قوم کو جس شدت کی دھمکی دی جارہی ہے، ان کا بلوچ قوم گزشتہ ستر سالوں اور خاص کر گزشتہ سترہ سالوں سے دلیری سے سامنا کرتا آ رہا ہے۔ اس دھمکی سے قبل بھی کئی سالوں سے قابض ریاست کے مظالم اور فوجی آپریشنوں کا مرکز ضلع آواران، خاران اور مکران رہے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ گوادر ایکسپو کو کامیاب کرنے کیلئے گوادر کو فوجی حصار میں لیا گیا اور ساہیجی سمیت قریبی پہاڑیوں اور آبادی کو بھی محاصرے میں لیکر اس نمائش کا افتتاح کیا گیا، پھر بھی یہ کوئی توجہ حاصل نہیں کر سکا کیونکہ دنیا اس منصوبے کی ناکامی سے آگاہ ہو رہی ہے۔ اس میں چینی اور پاکستانی کمپنیوں کے علاوہ دوسرے بین الاقوامی اداروں کی عدم شرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچ قومی جد وجہد، بلوچ قوم کی بیش بہا قربانی اور ہمت ایک ایسے منصوبے کو ناکامی کی جانب دھکیل رہے ہیں جو بلوچ قوم کی موت و زیست کا مسئلہ ہے۔ گوادر پورٹ یا سی پیک منصوبے کی بلوچستان میں کامیابی سے لاکھوں غیر ملکیوں کی آباد کاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ خالصتاً بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرکے دائمی غلام رکھنے اور بلوچ قومی وسائل کو ہڑپنے کی پالیسی ہے۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ پاکستان بلوچ قوم کو نیست و نابود کرنے کیلئے جن سازشوں میں مصروف ہے، ہمیں قومی آزادی ہی کرہ ارض پر ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رکھ سکتی ہے۔ یہ احساس ہر بلوچ کے دل میں موجود ہے اور یہی احساس بلوچ عوام کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہونے کا اہم محرک ہے۔ جو لوگ پاکستان میں رہنے کی باتیں کرتے ہیں وہ وفاق پرست اقتدار کی لالچ میں ان سنگین حالات سے چشم پوشی کرکے مستقبل میں بلوچ قوم کے گناہ گار اور غدار ہی ٹھہریں گے۔