ماہل بلوچ کی جبری انٹرویو انصاف کے قتل کی نشانی ہے، خواتین کو ٹارگٹ کرنے کا نتیجہ 1971 کی طرح ہوگا۔ یہ عمل لوگوں کو ریاست کیخلاف نفرت کی ایک اور وجہ دیتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری نے زیرحراست ماہل بلوچ کے انٹرویو سے متعلق کی ہے۔ ایمان زینب نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر ٹوئٹس میں لکھا کہ ماہل بلوچ کا جبری اور اسکرپٹڈ انٹرویو اس کے کیس میں ہونے والے انصاف کے قتل کی ایک اور نشانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کے آئی ایس پی آر میں طرزعمل دیکھتے ہوئے یہ احمقانہ حکمت عملی بظاہر آصف غفور نے بنائی ہے۔ انہیں جس چیز کا احساس نہیں وہ یہ ہے کہ بلوچستان اسلام آباد نہیں ہے۔
ایمان مزاری نے کہا کہ کیا فوج کو اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں کیا ہوا، جب ڈاکٹر شازیہ کا ریپ کیا گیا۔ بلوچستان میں خواتین کو ٹارگٹ کرنے کا نتیجہ وہی ہوگا جو ١٩٧١ میں ہوا، جب ہماری فوج نے چن چن کر خواتین کے خلاف جنگی جرائم کیے۔ یہ انکی غلط فہمی تھی کے اس گھٹیا حرکت سے ملک بچ جائے گا۔ ایسی ٹارگٹنگ صرف لوگوں کو ریاست کے خلاف نفرت کرنے کی ایک اور وجہ دیتی ہے۔
ایمان مزاری نے لکھا کہ معصوم بلوچ خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانے اور ان کی تذلیل کا یہ بدترین عمل بند ہونا چاہیے۔ ہماری فوج کو یہ واضح پیغام جانا چاہیے کہ پاکستان کی عوام انہیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے جبر اور entitlement کی وجہ سے پھر سے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ ماہل بلوچ دہشتگرد نہیں، یہ فوجی جرنیل دہشتگرد ہیں۔
دریں اثناء بلوچ طالبعلم رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ “خواتین کو جنگ میں نہ گھسیٹیں” کے نعرے لگانے والے افراد کو جبر کی اصل نوعیت کا علم ہونا چاہیے، کہ جب کسی قوم کو منظم نسل کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وحشی قوتیں کسی کی جان نہیں بخشتے ہیں جبکہ ہمیشہ خواتین اور بچے اس کی زد میں ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست ایک بے بس ماں ماہل بلوچ کو اپنے گندے پروپیگنڈہ جنگ کے لیے حراست میں رکھے ہوئی ہے۔ یہ ظلم جاری رہے گا۔ ایک محکوم قوم کی حیثیت سے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پرامن بلوچستان ہی ہماری نسلوں کی بقاء کی واحد ضمانت ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔