چراغ ِ آجوئی
تحریر: آفتاب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی شخص کے ساتھ رفاقت کو ہمیشہ کےلئے قائم رکھنا ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن ان کے خوابوں، سوچ اور نظریہ کو زندہ رکھنا ہمارے بس میں ہے۔ ان کے خوابوں کی تعبیر اس وقت ممکن ہوسکے گی جب ہم ان کے راستے پر چل کر ، ان کی سوچ و فکر اور نظریہ کو اپنا کر، اپنی قومی زمہ داریوں کا احساس کرکے ان کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
شعور و فکر اور قومی آزادی کے نظریہ سے لیس ایک ایسا شخص شہید خیر بخش بلوچ عرف اشفاق آجو تھا جس نے آنیوالی نسلوں کےلئے ایک خوشحال معاشرہ اور آزاد وطن کی قیام کا خواب آنکھوں میں لئے 8 سال سے زائد عرصے تک مستونگ کوہ ماران و ناگاہو سمیت مختلف محازوں پر مزاحمت کا علم بلند کرکے قابض پنجابی دشمن کے خلاف برسرپیکار رہا۔
شہید خیر بخش بلوچ عرف اشفاق آجو بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک جانباز سپاہی اور بہادر جنگجو تھا جو گذشتہ دنوں 2 اپریل کو بولان کےعلاقے ڈھاڈر میں قابض دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔
3 اپریل کے دن جب سوشل میڈیا پر ڈھاڈر جھڑپ میں ایک ساتھی کی شہادت کی غیر مصدقہ خبریں آنے لگیں تو یہ سوچ کر دل بیٹھ سا جار ہا تھا کہ نجانے کون سا سنگت وطن کے عشق اور آزادی کی چاہ میں نثار ہوگیا۔
ساتھی تنظیم کے ترجمان کے بیان میں شہید خیر بخش عرف اشفاق آجو کا نام دیکھ کر دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی کیونکہ مجھے یہ خوشبختی حاصل رہی تھی، میں نے شہید خیر بخش عرف آجو کو قریب سے دیکھا تھا اور اسکی سنگتی میں چند وقت گزارا تھا ۔
یقیناً شہادتوں سے قومی تحریک کمزور نہیں بلکہ مزید مظبوط ہوگی اور شہادتیں جنگ کا حصہ ہیں ۔ بغیر خون بہائے منزل کو پانے کا تصور بھی ناممکن ہے لیکن شہید آجو جیسے مخلص اور بلند حوصلوں کے مالک جہدکار سنگت کا جلدی سے نعم البدل پانا بھی مشکل ہے ۔
شہید آجو جیسے جہدکار کے عظیم اور مخلصانہ کردار کو بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں اور نہ ہی میں کوئی لکھاری ہوں کہ اس کے کردار کو خوبصورت الفاظ میں سمو کر آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔ بس کچھ یادیں ہیں جو اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جن کو میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں قلم بند کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔
قومی سوچ وفکر اور نظریئے پر مظبوطی سے کاربند،خوبصورت ہنس مکھ چہرہ ،سر پر گھنے بال خوبصورت داڑھی شان کے ساتھ چلنے والا خیر بخش عرف آجو ایک انمول ساتھی تھا جس نے قومی آذادی کا پختہ عزم لیکر مستونگ ناگاہو کوہ ماران کے محاز پر اپنے قومی فرائض کو ہمیشہ مخلصی سے سرانجام دیتا رہا، دشمن نے شہید خیر بخش کو توڑنے اور اسکی سوچ کو متزلزل کرنے کےلئے اسکے بڑھے بھائی کو لاپتہ کرکے مسخ شدہ لاش کی صورت میں اپنے جبر کا نشانہ بنایا اور چھوٹے بھائی شہید نصراللہ عرف واجہ کی محاز پہ شہادت سے بھی کمزور نا ہوئے خیربخش مظبوطی سے آخری سانس اور آخری گولی تک ڈٹا رہا اور اپنی بیش بہا قیمتی زندگی کو مادرِ وطن پر نچھاور کرکے خود کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے امر کردیا۔
خیر بخش جیسے جفا کش و خواری کش دلیر فرزندوں کے عزم و ہمت اور حوصلے کو دیکھ کر میرا یقین اور پختہ ہوجاتا ہے کہ شکست و رسوائی قابض دشمن کی ایک دن ضرور مقدر بنےگی، کیونکہ بلوچ فرزِندوں نے اپنے مادر وطن کی آزادی اور اپنے قومی وقار کے سربلندی کےلئے مرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے اور جو قومیں اپنی بقاء کےلئے مرنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں پھر انھیں دنیا کی کوئی بھی طاقت زیر نہیں کرسکتا۔
شہید خیر بخش سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں دوستوں سے ملنےبولان گیا تھا، ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا 3دن بعد صبح دوستوں کے پاس کیمپ میں پہنچ گئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دوستوں نے کھانا تیار کیا ہوا تھا اور ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک شہید خیر بخش عرف آجو بھی تھا جو اس وقت وہاں کیمپ میں موجود تھا۔
زندگی میں پہلی بار کسی پہاڑی علاقے میں طویل پیدل سفر، گرم موسم، پیاس اور راستے کے نشیب و فراز بڑے پتھروں پر چڑھنے اترنے کی وجہ سے میری حالت بری ہوگئی تھی، پاؤں اور جسم میں شدید درد ہورہا تھا اور میں بے حد تھکا ہوا تھا۔ دوستوں نے کھانا لایا اور ہم نے کھانا کھا لیا.سب دوست اپنے ذمہ داریاں نبھانے چلے گئے ۔ ایک دوست جسکو میں پہلے سے جانتا تھا مجھے درد و تھکن رفع کرنیوالے کچھ گولیاں دیں ۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر مجلس کرنے بعد دوست نے کہا آپ کافی تھک گئے ہو آرام کریں کل پھر آپ سے تسلی سے ملاقات ہوگی ۔ یہ کہہ کر وہ بھی اپنی ذمہ داری نبھانے چلا گیا۔ میری بھی تھکن کی وجہ سے جلدی آنکھ لگ گئی اور میں نیند کے آغوش میں چلا گیا۔دوپھیرکو جب نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کیمپ کے سارے دوست کیٹلی کے اردگرد بیٹھ کر چائے پی رہے ہیں ، میں بھی اپنے جگہے سے اٹھ کر ان کے پاس بیٹھ گیا دوستوں کے ساتھ اچھی طرح سے حال احوال نہ ہوسکا تھا اور اب میں تازہ دم ہوگیا تھا اس لئے ایک بار پھر سے ان کے ساتھ باری باری جوڑ بڑھ کرنے لگا ۔ شہیدخیر بخش بھی وہاں بیٹھا تھا اور اسکے چہرے پر بھی ایک خوبصورت سی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد تقریبا ایک مہینے تک میں وہاں دوستوں کے ساتھ کیمپ میں رہا اور ہر روز شہید خیر بخش کو ہنسی مزاک اور اپنے ذمے میں آنیوالے کام کاج کو مخلصی سے ادا کرتے دیکھتا۔
یہ شہید خیر بخش عرف آجو کے ساتھ میری آخری رفاقت تھی اس کے بعد اس کے ساتھ نہ کبھی بات اور نہ ملاقت ہوئی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں